عورت ٹیڑھی پسلی سے

عورت ٹیڑھی پسلی سے


 عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے ۔ اس لیے ٹیڑھی رہے گی ۔ اس کو سیدھا کرنے کا بہت ہی آسان ساطریقہ ہے ۔

 حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ عورت پسلی سے پیداکی گئی ہے ۔ اگر آپ ﷺ کی اس ارشاد گرامی پر غور کیا جائے تو اس میں بہت ہی عجیب و غریب اور حکیمانہ تشبیہ اور فارمولہ موجود ہے جو کہ عورت کو سیدھا کرنے کےلیے بہت کارآمد ہے ۔ بعض لوگوں نے اس  کی تشریح یہ کی کہ اللہ تعالی نےسب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا ۔ اس کے بعد حضرت حوا علیہا السلام کو حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا فرمایا گیا ۔بعض کہتے ہیں کہ عورت کی مثال پسلی کی طرح ہے ، کہ جس طرح پسلی دیکھنے میں ٹیڑھی معلوم ہوتی ہے لیکن اس کا صحیح ہونا یعنی اس کی صحت اور اس  کا حسن اس کے ٹیڑھا ہونے ہی میں ہے۔ اس لیے اگر کوئی فرد چاہے کہ اس کو سیدھا کرے ۔ تو جب سیدھا کرے گاتو بجائے اس کے کہ وہ سیدھی ہوجائے الٹا ٹوٹ ہی جائے گی ۔اور جب ٹوٹ جائے گی تو ظاہر ہے کہ کسی کام کی نہیں رہے گی ۔ پھر اگر کوئی چاہے کہ پسلی جس مقصد کے  لیے بنائی گئی ہے وہ پورا ہو تو اسے پہلی والی حالت پر لاکر پلاستر وغیرہ کراکے جوڑنا پڑے گا تب کہیں جا کر وہ ٹھیک ہوگی اور اپنے مخصوص حالت میں رہ کرہی کارآمد بنے گی ۔

   بعض لوگ اس تشبیہ کو عورت کی مذمت کے طور استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عورت چونکہ ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے اس لیے اس کی اصلیت ٹیڑھی ہے ۔ تو ہمیں چاہیے کہ اس کے ٹیڑھے پن کو نکال کر اس کو درست حالت میں لے آئیں ۔ ایسے تمام لوگ صریح غلطی پر ہیں کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ارشاد مبارک کا ایسا مفہوم تو کسی طور بنتا ہی نہیں ہے ۔ تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پسلی کو سیدھا نہیں کرنا بلکہ اُس سے اُس کے اسی ٹیڑھے پن میں ہی نباہ کرنا  ہے ۔ اس کے ٹیڑھے پن کا لحاظ بھی رکھنا ہے اور اسی طرح پیش آنا ہے کہ وہ ٹوٹ بھی نہ جائے اور زندگی کی گاڑی بھی چلتی رہے ۔

قدرت کی طرف سے مرد اور عورت کو الگ الگ خاصیتیں عطا کی گئی ہیں ۔ دونوں میں کچھ باتیں  مشترک بھی ہوں گی جن پر بحث کرنے  کی حاجت نہیں ہے ۔ یہا ں پر مزاج کے اختلاف کو ہی زیربحث لانا مقصود ہے ۔ توعرض ہے کہ جب بنانے والے نے مزاج مختلف رکھا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں کہ اس کے مزاج کو تبدیل کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس طرح اپنی بھی بہت ساری توانائی اور بہت سارا وقت برباد کر رہے ہیں ،، اور اُسے بھی تکلیف پہنچا رہے ہیں ۔  کیا کبھی ہم نے یہ کوشش  کی ہے کہ ہم کان سے دیکھیں اور آنکھ سے سنیں ۔ کیا کبھی کسی نے منہ کے بجائے آنکھ میں نوالہ ڈالا ہے ۔ یقیناََ سب کا جواب یہی ہوگا کہ نہیں ۔ تو جب نہیں ،تو عورت کے معاملے میں ہم کیوں قدرت کے خلاف کرنے کی کوشش میں لگےہوئے رہتے ہیں ؟

تو اے میرے بھائیو اور بزرگو ! قدرت کے فیصلے کو قبول کر لیں اور ٹیڑھی پسلی سے اس کے ٹیڑھا پن میں ہی نباہ سیکھ لیں ۔ اس میں ہماری بھی بھلائی ہے اور اس بے چاری مخلوق کی بھی بھلائی ہے ۔ اگر ہمارا مزاج اس سے مختلف  ہے تو اس میں کڑھنے اور کسی کو موردالزام ٹھہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ اسلامی احکامات اورسنت کے طریقوں کے خلاف نہ خود کریں اور نہ اپنے گھر والوں کو کرنے دیں ۔ اپنی بات اور فیصلے پر بے شک ڈٹے ہوئے رہیں لیکن لہجہ نرم اور شائستہ رکھیں ۔


(تحریر : عبداللہ سیماؔب)