چند دن پہلے کا ذکر ہے کہ سادہ خان اور گودام شاہ ملنے آئے تو آج بھی حسب معمول خوش گپیوں میں
مصروف دکھائی دیے ۔ ہم نے دل میں دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کی محبت
ایسے ہی قائم و دائم رہے اور دن دوگنی رات
چوگنی ترقی کرے۔ سلام دعا اور حال احوال پوچھنے کے بعد گودام شاہ گویا ہوئے کہ
سادہ خان مجھے کہتا ہے کہ آپ کے بارے میں مجھے اکثریہ خوف دامن گیر رہتا ہے ، کہ آپ
فضول خرچ ہیں کیونکہ آپ نے اپنے گھر کوقالین
، صوفے اور دیگر اشیائے ضروریہ سے بہت سجایا ہوا ہے ۔ تو مجھے بھی یہ فکر لگی رہتی
ہے کہ کہیں واقعی ایسا ہوا تو نعوذباللہ ! احادیث کی رُو سے تو میں شیطان کا بھائی
ہوا ۔ آپ برائے مہربانی ہماری راہ نمائی کریں ۔
مجھے حیرت انگیز خوشی ہوئی ۔ چند لمحوں کے لیے ان دونوں کی
کیفیت سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم نے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ
اس نےہمیں ایسے دوستوں سے نوازا ہے، جن کو
احادیث مبارکہ پر عمل کرنے کا اس قدر شوق ہے اور اپنی آخرت کے بارے میں اتنے فکر
مند ہیں کہ سیاست ، مہنگائی ، حالات حاضرہ ، کاروبار ، واقعات یا شخصیات پر لایعنی
تبصرے اور پھر ان تبصروں کے ریزلٹ میں جھگڑے نہیں کرتے ۔ بلکہ اپنے رب کریم جل
جلالہ اور اس کے حبیب ﷺکے پسندیدہ بننے کی
جستجو میں لگے رہتے ہیں ۔ ہم اسی سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے کہ سادہ خان نے پکارا ۔
سیماب صاحب ! کیا بات ہے اپ تین چار منٹ سے چُپ سادھے مسکرائے جارہے ہیں ۔ ہم نے
کہا کہ الحمدللہ ہمیں اس بارے میں تھوڑا بہت معلوم ہے ۔اس لیے آپ کی پریشانی دور کرنے میں شاید کامیاب ہوسکیں ۔
ہم نے حضرت مفتی
تقی عثمانی مدظلہم کی کسی کتاب میں پڑھا ہے کہ
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے گھر کے بارے میں فرمایا ہے کہ گھروہ ہوتا ہے
جو قابل رہائش ہو۔ مثلاََ جھونپڑی بنا دی
، یا چھپر ڈال دیا ۔ اس میں بھی آدمی رہائش اختیار کرسکتا ہے ۔ یہ پہلا درجہ ہے جو
بالکل بلا کسی شک و شبہ کے جائز ہے ۔
دوسرا درجہ یہ ہے کہ رہائش بھی ہو اور ساتھ میں آسائش بھی
ہو ۔ مثلاََ پختہ مکان جس میں انسان آرام کے ساتھ رہ سکتا ہو۔ اگر اس میں آسائش کے
لیے کوئی کام کیا جائے تو اس کی ممانعت نہیں ہے ۔ اور یہ بھی اسراف میں داخل نہیں ہے
مثلاََ ایک شخص جھونپڑی میں رہ سکتا ہے اور دوسرا نہیں رہ سکتا ہے ۔ اسے رہنے کے لیے پختہ مکان اور اس میں بجلی کا مکمل بندوبست چاہیے ۔ اب اگر وہ
شخص اپنے مکان میں بجلی ، پنکھا ، لائٹیں اور دوسری اشیاء اس لیے لگاتا ہے کہ اسے
آرام حاصل ہو تو یہ اسراف نہیں ہے ۔
تیسرا درجہ یہ ہے
کہ مکان میں آسائش کے ساتھ ساتھ آرائش بھی ہو ۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے پختہ
مکان بنا ہوا ہے ۔ پلاستر کیا ہوا ، بجلی بھی ہے ، پنکھا بھی ہے ۔ لیکن اس مکان
میں رنگ و روغن نہیں کیا گیا ہے ۔ اور ایک بات توبالکل واضح ہے کہ رہائش تو بغیر
رنگ و روغن والے مکان میں بھی ہوسکتی ہے ۔ لیکن آرائش بغیر رنگ اور روغن کے نہیں
ہوسکتی تو اگر کوئی شخص آرائش کے لیے اپنے مکان میں رنگ و روغن کرائے تو یہ اسراف
میں داخل نہیں ہے ۔
چوتھا درجہ یہ ہے
کہ کوئی ایسا کام کیا جائے جس سے نہ آسائش مقصود ہو اور نہ آرائش ، یعنی آرام یا
دلی خوشی مقصود نہ ہو بلکہ مقصد صرف یہ ہو
کہ لوگ مجھے بہت پیسے والا اور بڑی شان و شوکت والا سمجھیں ۔ اس سے لوگوں پر اپنی
فوقیت جتاؤں اور اپنے آپ کو کوئی بڑی شئے ثابت کروں ۔ اسے نمائش کہتے ہیں ۔ شریعت
مطہرہ میں یہ جائز نہیں ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ رہائش، آسائش اور آرائش تینوں جائز ہیں
۔ گزارےوالا بھی جائز ہے ، آرام والا بھی جائز ہے اور خوب صورت اور نفیس بھی جائز
ہے ۔ لیکن دکھاوے والا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے ۔
الحمد للہ ! یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تُو نے اپنی
نافرمانی سے بچایا ہوا ہے ۔ ابھی ہم نے بات پوری
ہی کی تھی کہ سادہ خان اور گودام شاہ کی زبان سے یک آواز حمد اور شکر کے
الفاظ جاری ہوگئے ۔ ان کی دیکھا دیکھی ہمارے منہ سے بھی الحمد للہ ثم الحمد للہ
نکلا کہ رب کائنات نے ہمیں اتنے پرہیز گار
اور نیک دل دوستوں سے نوازا ہے ۔
(تحریر :
عبداللہ سیماؔب)