اپنی نسلوں کو تباہی سے بچائیں


ہمارے دوست گودام شاہ آج کل جو بھی کام کرتے ہیں اس کے لیے شارٹ کٹ کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ وہ  چاہتے ہیں کہ چٹکی بجاتے ہی کام ہو جائے اور اُسے کسی قسم کی محنت یا دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔گودام شاہ چاہتے ہیں کہ اگر وہ کام کریں بھی تو   محنت کم اور نتیجہ زیادہ آئے ۔ یعنیاُس کے ذمہ  اِن پُٹ کم آئے  اوراُسے  آؤٹ پُٹ زیادہ ملے ۔اِس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں : مثلاََ سہل پسندی ، کام چوری، غیر ذمہ دارانہ مزاج،وقت کی کمی اور کام کا بوجھ ۔ اسی بناء پر وہ  کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام نکالنا یا نکلوانا چاہتے ہیں ۔او راسی چکر میں کبھی کبھی وہ  زیادہ سے زیادہ تو کیا ،جو عام طور پر ہونا چاہیے ہوتا ہے وہ بھی  کر سکنے سے لا چار ہوجاتے ہیں۔جب بھی اس طرح کی صورت حال سے گودام شاہ کا  سامنا ہوتا ہے تو وہ  جسمانی تھکاوٹ کے ساتھ ساتھ ذہنی تھکاوٹ اور کسی حد کا تک بے دلی کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔تو کیوں نہ ہم اس کے لیے ایسا کوئی راستہ ڈھونڈ لیں جس پر چل کر نہ صرف اس کے کام آسان ہو جائیں بلکہ اُسے  کم وقت اور کم محنت کے ساتھ زیادہ نتائج حاصل ہوں ۔

    ہم آئے روز اپنے دفاتر اور کام کی جگہوں پر اکثر ایسے اشخاص کو دیکھ سکتے ہیں جو ہر وقت کام کی کثرت اور وقت کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں۔  کیا کبھی آپ نے ایسے اشخاص کو بنظر غائر دیکھا ہے ؟ اگر نہیں تو آئیے  ہم آپ کو دکھا تے ہیں کہ اصل معاملہ کیا ہوتا ہے ؟ ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب بھی ان افراد کو کوئی کام یا ذمہ داری اپنے سے اوپریا ما تحت افراد کی طرف سے ملتی ہے ۔ تو بجائے اس کے کہ وہ اس کام یا ذمہ داری کو اُسی وقت موقع پر ہی نمٹا دیں ۔ یہ اشخاص کبھی چائے کی چسکیاں لیتے ، کبھی سگریٹ پھونکتے ، کبھی ساتھ میں کام کرنے والوں کے ساتھ گپیں ہانکتے اور کبھی موبائل میں مشغول اور مصروف ہوتے نظر آتے ہیں ۔ جس کاواضح نتیجہ وہی نکلتا ہے جو کہ ہونا چاہیے کہ کام کا نہ ختم ہونے والا بوجھ ہر وقت ان کے سر پر سوار رہتا ہے ۔ اور اسی بوجھ کے ڈر سے وہ کام کرنا تو کجا  ، کام کرنے کا سوچنے کی بھی ہمت نہیں کرتے ۔اس صورت حال میں اگر ان کا کوئی ہمدرد ساتھی ان کو کام کرنے پر اکسانے کی ناکام سی کوشش بھی کرتا ہے ،تو یہ اشخاص اس بے چارے کے ساتھ بھی غیر مہذب رویہ اپنا تے ہیں ۔ کیوں کہ وہ ہمدرد تو ان کو اس طرف لے جانے کی کوشش کررہا ہوتا ہے جہاں جانے سے ان کو ڈر لگتا ہے ۔

      جب بھی مذکورہ بالا کیفیت پائی جائے ہمیں بہت حوصلے سے کام لیتے ہوئے ایک ہی حکمتِ عملی اپنانی چاہیے ۔ کہ ایسے افراد کے سامنے کوئی ایسا کام شروع کرنا چاہیے جو کہ بظاہر بہت مشکل اور بہت لمبا ہو ۔ جب بھی ہم اپنا کام بطریقِ احسن پایہ تکمیل تک پہنچا لیں گے تو ان اشخاص کے دل میں بھی ضرور نیا جذبہ اور کام کو نمٹا نے کا ولولہ پیدا ہوگا ۔  لیکن کبھی کبھار ایسا کرنے سے بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے ۔ تو پھر کیا کرنا چاہیے ؟ پھر کرنا یہ چاہیے کہ ان اشخاص کےساتھ مل کر ان کے کام کے انبار کو کم کرنے میں جُت جانا چاہیے ۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو ان کو سمجھایا بھی جاسکتا ہے کہ جس کام کا بوجھ انھوں نے اپنےسروں  پر لاد رکھا ہے ۔ اس سے جان چھڑانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کام کو ختم کیا جائے اور ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کام شروع کیا جائے ۔ اس طرح روزانہ کے بنیاد ہر تھوڑا تھوڑا کام کر کے ایک دن آجائے گا کہ سار اکام ختم ہو چکا ہوگا ۔

      درج بالا صورتِ حال سے نہ صرف بڑوں ، بلکہ بچوں خصوصاََ طلبہ کو بھی سامنا ہوتا ہے ۔ جب وہ اپنے سکول کے کام روزانہ کے بنیادوں پر نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ایک دن بیٹھ کر سارا کام مکمل کرلیں گے ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھیں احساس ہوتا ہے کہ اب کام مکمل کرنا ان کے بس میں نہیں ہے ۔ تو انھیں یا تو سکول کالج میں روز  شرمندگی اُٹھا نی پڑتی ہے یا وہ اس شرمندگی سے راہِ فرار اختیار کرنے کی کوشش میں  سکول کالج  سے غائب رہنا شروع کردیتے ہیں ۔ پھر کیا ہوتا ہے کہ اُن کا تعلیمی معیار خراب ہوتے ہوتے اس سطح پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے دوبارہ اوپر جانے کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح ایک لائق اور مفید فرد نہ صرف ضائع ہو جاتا ہے بلکہ ملک اور قوم پر بوجھ بن جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے آنے والے وقتوں میں ادارے اور نسلیں تباہ ہوتی ہیں ۔ اس ساری بحث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر ہمارے اردگرد ایسا کوئی طالب علم یا کوئی بھی دوسرا فرد موجود ہے تو ہم اس کی معاونت کر کے اس کو اس کے کام پر فتح دلا دیں تو یہ فتح نہ صرف اُس کی ہوگی بلکہ پورے ملک اور پوری قوم کی ہوگی ۔ جس کے ادارے اور نسلیں تباہ ہونے سے بچ چکی ہوں گی ۔

 

(تحریر : عبداللہ سیماؔب)