شیطان کے سبز باغ

 

بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مرید تھا ، روز خواب میں جنت کےباغات دیکھتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روز خواب میں جنت کے مناظر دیکھتا ۔ چنانچہ یہ بات اُس نے لوگوں میں بتا دی اور کمیونٹی میں پھیل گئی ۔ ایک دن وہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آیا تو حضرت نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ اب اگر تم خواب میں جنت دیکھو تو لا حول پڑھ دینا ۔ اس کو بڑا غصہ آیا کہ میرے شیخ میرے درجات پر جیلسی فیل (حسد) کرنے لگ گئے ہیں ۔ خیر گھر آیا۔ اللہ تعالیٰ کی شان ، جب اس نے رات پھر وہی منظر دیکھا ،شیخ کی توجہ تھی ، شیخ کی اخلاص بھری دعائیں تھیں ۔ چنانچہ خواب میں ہی اُسے یاد آگیا کہ مجھے تو شیخ نے کہاتھا کہ لا حول پڑھنا ، چلو میں لا حول پڑھتا ہوں ۔ جیسے ہی اُس نے لاحول پڑھی جو منظر تھا سب کا سب ختم ہو گیا ۔ آنکھ کھل گئی ۔ حیران ہوا کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟

      اب شیخ کے پاس آکر بات بتائی ۔ شیخ نے فرمایا یہ شیطان تمھیں دنیا کا کوئی خوبصورت باغ دکھا کر دل میں ڈال رہا تھا  کہ تم جنت کی سیر کر رہے ہو۔ تمھارے اندر عجب اور خود پسندی پیدا کر رہا تھا ، کہ اس کے  ذریعےتمھیں تباہ کردے ۔ تم نے میری بات مان کر ایسا اچھا عمل کرلیا کہ اللہ تعالی نے تمھیں شیطان سے نجات عطا فرمادی ۔ اگر وہ شیخ کو نہ بتاتا تو اپنے آپ میں پتہ نہیں کیا بنا پھرتا ۔

 

ہم بھی اگر غور کریں تو یہ حال ہمارا بھی ہے کہ بنظر  خویش ہم بہت پارسا بنے پھرتے ہیں لیکن اصل حالت تو اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔ ہم جو لوگوں کے سامنے خود کوبہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں  کہ ہم یہ ہیں ہم وہ ہیں ۔ اس کی حقیقت کا تو یا ہمیں پتہ ہوتا ہے یا ہمارے اللہ جل شانہ کو ۔ جیسے کہ کوئی بیوٹی پارلر وغیرہ جا کروہاں سے خوب آرائش و زیبائش کر کے باہر آتا ہے تو دیکھنے والے سمجھتے ہیں یہ تو بڑ ی شئے ہے لیکن اس کی اصل کا تو خود اُسے پتہ ہوتا ہے یا بنانے سنوارنے والے کو۔   بالکل بعینہ یہی مثال ہمارے اندر کی ہے کہ  ہم خود کو جو بھی ظاہر کریں اللہ تعالیٰ حقیقت سے باخبر ہے ۔

اس لیے جس طرح جسمانی بیماریوں کے علاج کے لیے ہم ڈاکٹر وں کے پاس بھا گے جاتے  ہیں اسی طرح روحانی امراض  کی فکر بھی کریں ۔جس طرح کسی انجنیئرسے دل کا علاج نہیں کرواتے اور نہ ہی کسی ڈاکٹر سے مکان کا نقشہ بنواتے ہیں اسی طرح ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے روحانی اور نفسانی امراض کا علاج بھی ان ہستیوں سے کروائیں جو ان کا علاج جانتے بھی ہیں اور کر بھی سکتے ہیں ۔  کیوں کہ جب تک ہم خود کو صحیح راستے پر نہیں ڈالیں گے  اللہ نہ کرے اسی طرح خود فہمی اور خود فراموشی میں مبتلا رہ کر تباہی کی طرف بڑھتے رہیں گے ۔ اور اگر اللہ نہ کرے اس حالت میں فرشتہ اجل نے پکارا تو انجام کسی سے ڈھکا چھپا  نہیں ہے ۔

 

  

(عبدااللہ سیماؔب)