ہم سے ہوجو آشنا، وہ آشنا نہیں ملا
اس دل کو سمجھنے کو دلربا نہیں ملا
مایوس نہیں دنیا سے پر ہوں تھکا تھکا
سمجھے میرا مفہوم کوئی ایسا نہیں ملا
میں ہوں کھلی کتاب کوئی آکے دیکھ لے
جس میں پڑھا جاؤں وہ مدرسہ نہیں ملا
پھنسا ہوا ہوں زیست کے بھنور میں بے طرح
کھینچ کے جو نکالے وہ ناخدا نہیں ملا
تمام عمر تھاما پھسلتوں کو جس نے تھا
گرنے لگا جب وہ تو سہارا نہیں ملا
خوشی ملی خوشحال ہوئے پھر بھی دوستو
ہوتی تھی جس کی ہم کو تمنا نہیں ملا
سیماؔب پہ ہی تم نے پابندیاں لگائی ہیں
ورنہ یہاں کس کس کو کیا کیا نہیں ملا
( عبداللہ سیماؔب )