دسمبر کی 26 تاریخ تھی۔لگاتار پانچ دن برسنے کے بعد آج پہلا دن تھا کہ بارش تھمی تھی ۔صبح سے موسم کافی خوش گوار تھا۔ سورج اپنی آب وتاب دکھا رہا تھالیکن اسے سردی کی شدت کو کم کرنے میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہورہی تھی۔ لیکن پھربھی ہر کوئی مطمئن لگ رہا تھا کیوں کہ آسمان پر دور دور تک بادل نظر نہیں آرہے تھے۔ شام سے تھوڑا پہلے جنوب کی طرف سے بادل کا ایک ٹکڑا اُبھرا اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان کی وسعتوں میں پھیلنے لگا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے سورج کے ساتھ مقابلہ لگا رکھا ہوکہ اس کے سامنے ہی سارے آسمان پر قبضہ جمائے گا۔سکینہ نے پریشان نظروں سے آسمان کی طرف دیکھا اور لکڑیوں کو گیلا ہونےسے بچانے کے لیے جلدی جلدی اندر لے جانے لگی۔
وہ کئی دن سے پریشان لگ رہی تھی۔سب کو کھانا کھلاکراور عشاء
کی نماز وغیرہ سے فارغ ہوکر اپنے کمرے میں جانے سے پہلے اس نے بہو کے کمرے میں
جھانکا۔ "اماں ! میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔لگتا ہے آج زور کی بارش ہوگی"
راشدہ نے اسے دیکھ کر خوف زدہ سے لہجے میں
کہا۔ " اللہ خیر کرے گامیری بچی تم پریشان نہ ہو اکرو" سکینہ نے
جواب دیا "اورپھر ہم سب ہیں نا" کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
"ٹک ٹک ٹک"
دروازے پرہلکی سی دستک ہوئی تھی جس سے سکینہ کی آنکھ کھل گئی تھی ۔ اس نے
سرہانے رکھے ٹائم پیس پر نظر ڈالی تورات کے ڈھائی بج رہے تھے۔ اس نے ہڑبڑا کر بستر
سے چھلانگ لگائی اور دروازے پر پہنچ گئی کیوں کہ اسے پتہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔دروازے
پر اُس کا بیٹا انور کھڑا تھا۔ "امی! وہ راشدہ درد سے بے حال ہے آپ میرے ساتھ
آئیں نا " انور نے جلدی سے بتایاتو سکینہ معاملہ سمجھ گئی ۔ اتنے میں بادل
بہت زور سے گرجے ، بجلی چمکی اوربارش جو کہ ہلکی ہلکی برس رہی تھی تیزہونے لگی ۔ "بیٹا
!تم وضو کرکے سورہ یاسین کی تلاوت شروع کردو"بیٹے کو تسلی دیتے ہوئے وہ بہو
کے پاس جانے لگی تو انور کے منہ سے اتنا نکلا "جی امی اور میں کر بھی کیا
سکتا ہوں"۔
انور جلدی جلدی ٹھنڈے پانی سے وضو کرکے امی ابو کے کمرے سےقرآن
پاک اُٹھا نے گیا تو اس کے ابوجاگ گئے بیٹے کے ہاتھ میں قرآن پاک دیکھ کر خوش
سے کہنےلگے "ماشاء اللہ لگتا ہے
ہمارا بیٹا تہجد پڑھنے اُٹھا ہے " پھر اپنی بیوی کی چارپائی کی طرف دیکھتے
ہوئے" واہ کیا بات ہے !!!! مطلب تمھاری ماں بھی تہجد پڑھنے کی تیاری کررہی
ہیں "۔ "جی ابو ! وہ امی ، اصل میں وہ راشدہ ہے نا" انور سے جواب
نہیں بن پارہا تھا۔"ماشاء اللہ ماشاء اللہ ، توہماری بہو بٹیا بھی تہجد کے
لیے اُٹھی ہوئی ہیں؟ واہ میرے مالک تیرا
شکر ہے کتنا نیک گھرانہ عطا کیا ہے تُو نے مجھے"کرامت علی پُرجوش اور اونچی
آواز میں بولنے لگے ۔آواز سن کر سکینہ دوڑی ہوئی آئی "آپ بھی جلدی سے وضو
کرکے سورہ یاسین کی تلاوت شروع کریں ، بہو کی طبیعت بہت خراب ہے" اور جس طرح
دوڑ کے آئی تھی اُسی طرح واپس ہوئی ۔
کرامت علی کی گاؤں میں سبزی کی دکان تھی ۔ اپنے کھیتوں پر
اُگائی ہوئی سبزی ترکاری یہاں لاکر بیچا کرتے تھے۔کوئی پندرہ سولہ سال پہلے کسی محکمے
سے ریٹائرڈ ہوئے تھے لیکن کم سکیل میں
ہونے کی وجہ سے پنشن اتنی قلیل مل رہی تھی کہ دو وقت کی روٹی بھی بمشکل ہو سکتی
تھی اس لیے کھیتوں میں محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی سی دکان بھی بنا لی
تھی۔چونکہ خوددار اور دین دار شخص تھے اس لیے بات کے کھرے اور پکے تھے ۔ سارے گاؤں
والے اُسے کرامت علی خان کہا کرتے تھے حالانکہ اس کے بچپن کا نام کرمو تھا۔
چونکہ مزاج میں سادگی اور مذہبی عنصر غالب تھا اس لیے دور
پار کے نسبتاََ نیک اور خدا ترس رشتہ داروں میں سے شادی کی ۔ حالانکہ کئی گھروں سے
رشتے نہ صرف آئے تھے بلکہ انکار پر
باقاعدہ ناراض بھی ہوئے۔شادی کے دوسرے سال اکرم،آٹھویں سال انور ، گیارہویں سال
زُہرہ اورپندہویں سال امجد اور زینب ایک ساتھ پیدا ہوئے۔ یوں کرامت علی عرف کرامت
علی خان اور سکینہ بی بی اپنے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دیے
ہوئے پر صابر شاکر ہوکر زندگی گزارنے لگے ۔
چونکہ کرامت علی نے غربت اور جوڑ کا رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے
تیس سال کی عمر میں شادی کی تھی ۔ اس لیے بڑےبیٹے اکرم کی شادی بیس سال کی عمر میں
کرادی گئی لیکن جب شادی کو تین سال گزرے اور سکینہ کے بانہوں میں پوتا پوتی نہ آئے
تو منجھلے بیٹے انور پر شادی کے لیے دباؤ
ڈالا جانے لگا۔اس وقت انور کی عمر صرف
سترہ سال کچھ مہینے تھی اس لیے منت سماجت کرکے امی ابو کو شادی نہ کرنے پر
راضی کرلیا لیکن بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے۔ ابھی سال بھی پورا نہیں گزرا
تھا کہ سکینہ نے کرامت علی کے ذریعے سے انور کی شادی کے لیے کوششیں تیز کردیں ۔ اس
طرح اُنیس سال کی عمر میں اس کی شادی اس کی مرضی کے مطابق خالہ زاد راشدہ سے کرادی
گئی ۔ آج انور کی شادی کو تین سال ہوگئے
تھے اور آج سے دو دن پہلے کرامت علی ساٹھ سال کا ہوگیا تھا ۔
کرامت علی وضو کرکے سورہ یاسین کی تلاوت کرنے بیٹھے تو عَلٰی
صِرَاطِ ِمُّستَقِیم پر سیدھے راستے کا سوچ
کر خیالات کی دنیا میں کھو گئے اور اس طرح
پچھلی زندگی کے تقریبا تیس چالیس سال کی سیر کر آئے کہ سکینہ کی آواز نے چونکا دیا۔
نوٹ : قسط نمبر : 2 جلد آرہا ہے اس لیے ویب سائٹ اور ہمارے فیس بک پیج سیماب ٹی وی یا فیس بک گروپ وطن ٹی وی وزٹ کرتے رہا کریں ۔ بہت بہت شکریہ
( تحریر :عبداللہ سیماؔب )