ہماری ذمہ داری آخرکس کی ہے؟

 

ہماری ذمہ داری آخرکس کی ہے؟

گرمیوں کی دوپہر تھی ۔ باہر سخت لُو چل رہی تھی۔ ہر کوئی اپنے گھر میں دبکا ہوا بیٹھا تھا۔پنکھے اورروم کولر کے سامنے سے اُٹھنے کا کسی کا دل نہیں چاہ رہا تھا ۔کھانا تو ایسے میں کوئی کیا کھاتا ، بچوں کا دل رکھنے کے لیے سب دسترخوان پرجمع ہوگئے ۔ ابھی دو ہی نوالے لیے ہوں گے کہ دروازے پر گھنٹی بجی۔ بڑے بیٹے نے جاکر آنے والے کو بیٹھک میں بٹھایا۔  پانی وغیرہ پلانے کے بعد مجھے اطلاع دی کہ سادہ خان انکل تشریف لائےہیں۔ میں نے فوراََ ہی کھانا چھوڑ کر بیٹھک کا رُخ کیا ۔میں جانتا تھا کہ سادہ خان ایسا آدمی نہیں ہے کہ بے وقت کہیں جائے۔ کیوں کہ اتنی شدید گرمی میں اس وقت باہر نکلنا بے وقت ہی تھا ۔ "السلام علیکم!" ہاتھ ملانے کو بڑھایا تو وہ بغل گیر ہوا۔ میری تشویش مزید بڑھ گئی ۔ وجہ وہی تھی کہ ہمیں اپنےعزیز دوست کی عادتوں اور مزاج کا بخوبی علم تھا ۔مصافحہ و معانقہ سے فراغت کےبعد اپنے ساتھ صوفے پر بٹھایا ، حال احوال پوچھا۔ تو ہر بات کے جواب میں بس ٹھیک ہوں ، ہاں بس ٹھیک ہوں ، ہا ں ہاں سب ٹھیک ٹھاک ہیں۔ جیسے جوابات دے رہے تھے جو کہ میری بے چینی میں اضافے کا باعث بن رہے تھے ۔ کہ اچانک ان کے موبائل کی گھنٹی بج اُٹھی ۔ انھوں نے کال اُٹھا نے میں تھوڑی پس وپیش کی۔ دو تین دفعہ میری طرف دیکھا۔ جب میں نے ریسیوکرنے پر زور دیا تو کال ریسیو کی، اور "آپ لوگ مزے کریں ، میں جہاں بھی ہوں آپ لوگوں کی بلاسے" کہہ کر کال منقطع کردی۔ تو مجھے لگا کہ میر ااندازہ بالکل درست تھا ۔

"سادہ خان بھائی آپ تشریف رکھیں میں آیا"  کہہ کر میں گھر کے اندر آیا اور گھر والوں کو کھانےکے لیے ہدایات دے کر میں بیٹھک میں واپس آیا ۔ اسے منہ ہاتھ دھلوایا، بیڈ پر دراز ہونے پر راضی کیا۔ اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن میں نے التجائیہ لہجے میں کہا کہ "نہیں میرے بھائی، مجھے بہت سخت بھوک لگی ہوئی ہے، پہلے کھانا کھائیں گے پھر چائے کے ساتھ ساتھ بات ہوگی۔ حالانکہ مجھے پہلے ہی بھوک نہیں تھی اور سادہ  خان کی حالت دیکھ کر تو رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی تھی۔ اس میں میرا مقصد یہ تھا کہ چوں کہ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ گھر ے ناراض ہوکر آیا ہے۔اس لیےاگر کھانے سے پہلے مجھے صورت حال بتادےگا۔تو پھر کھانا کھانے میں شرم اور جھجک محسوس کرے گا ۔ اس لیے پہلے کھانا پیناپھر باتیں۔

الغرض کھانے کے بعد چائے کا دور چلا تو وہ یوں گویا ہوا ،" آپ مجھے ایک بات کاجواب دیں سیماب صاحب۔" میں نے کہاپوچھیں۔ تو کہا کہ بیوی بچوں کو نان نفقہ دینے کے بعد اور ان کا کون سا حق ہے؟ میں نے کہا کہ گھر والوں کا کھانا پینا، کپڑے جوتے، تعلیم، صحت کا خیال کے علاوہ تمام ضروریاتِ زندگی نان ونفقہ میں آتےہیں ۔ کہا یہ تو میں سب کرتا ہوں، بلکہ کچھ زیادہ ہی کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ بتائیں۔میں نے کہا کہ "بیوی بچوں کو ٹائم دینا، ان کے غم خوشی میں ساتھ دیناوغیرہ "۔ "ارے نہیں یار!یہ سب تو آپ کو پتہ ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں اپنے گھر والوں کو کتنا چاہتاہوں، اُن کےلیے کیا کیا پاپڑ بیلتا ہوں ؟ مسئلہ یہ نہیں ہے۔" میں نے حیران ہوکر کہا کہ پھر کیا مسئلہ ہے؟ بتائیں نا!!! لمبی سانس لے کر کہنے لگا کہ بیوی بچے کہتے ہیں کہ آپ کاروبار تھوڑا محدود کر لیں۔ گھر کو ٹائم دیں۔حالانکہ ٹائم تو میں دیتا ہوں۔ اگر میں محنت کرتا ہوں تو انھی کے لیے کرتا ہوں ۔ آخر یہ لوگ سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟  میں نے جان بوجھ کر اسے بولنے دیا تاکہ اس کے دل کا غبار نکل جائے ۔ تقریباََ ادھا گھنٹہ سے کچھ اوپر بولنے کے بعد جب مطلع تھوڑا صاف ہوا تو میں نے کہا کہ میرے ذہن میں ایک تجویز ہے اگر آپ مناسب سمجھیں ۔ آپ ایک ہفتے کے لیے سارے کام کاج اور مصروفیات چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں اور مجھے وقتاََ فوقتاََ آگاہ کرتے رہیں ۔ کہا آپ کا یہ مشورہ ہے تومجھے منظور ہے کل کچھ ضروری کام نمٹا کر پرسوں سے آپ کی تجویز پر عمل شروع کر دوں گا۔ ادھر ادھر کی تھوڑی بہت باتیں کرنے کے اور نمازِ ظہر مسجد میں با جماعت ادا کرنے کے بعد سادہ خان رُخصت ہوا ۔جاتے ہوئے  ایک ڈیڑھ منٹ تک بغل گیر رہا ہے ۔ بہت دعا ئیں دیں ۔ اس کے چہرے سے ایسے لگ رہا تھا جیسے ڈاکٹر سے علاج وغیرہ کرواکر کوئی مریض گھر جا رہا ہو اور اُسے یقین ہو گیا ہو کہ اب چند ہی روز میں مکمل صحت یاب ہوجائے گا۔

اگلے دو دن تک سادہ خان کا کچھ پتہ نہ چلا ۔ ہم نے بھی جان بوجھ کر کال یا میسج نہیں کیے ۔ تاکہ اس کا گھر میں گزارا جانے والا وقت ڈسٹرب نہ ہو۔ تیسرے دن اس کی کال آئی اور کہا کہ میں آرہا ہوں آپ کہاں ہیں ؟ الغرض وہ آئے اور اتنی گرم جوشی سے ملے کہ مجھے اپنی پسلیوں کی فکر پڑگئی۔  بہت زیادہ خوش تھے ۔ بار بار شکریہ ادا کر رہے تھے۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ بات کیا ہے لیکن اس سے کہلوانے کے لیے پوچھا کہ ما شا ء اللہ !خیریت تو ہے آپ بہت خوش ہیں۔ کہا سیماب صاحب ، مجھے اپنے مسئلے کا حل ہاتھ آگیا ہے ۔ پوچھا کیسے ؟ اُس نے بہت دل کش مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ پہلے تو آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گاکہ آپ ہر موڑ پر بہت ساتھ دیتے ہیں۔میرا مسئلہ بیوی بچوں،  رشتہ داروں یا دوستوں کے لیے کچھ نہ کرنا نہ تھا ۔ میرا مسئلہ اپنے آپ کو وقت نہ دینا اور اپنے آپ کے لیے کچھ نہ کرنے کا تھا۔جس کا احساس آپ کی مدد کی وجہ سے مجھے ان تین دنوں میں ہوگیا ہے۔ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ میرے اپنے آپ کو بھی میری بہت  ضرورت ہے ۔ اور میرے گھر والے مجھ سے یہی چاہتے تھے لیکن سمجھا نہیں پا رہے تھے ۔رہ گیا میں تو مجھے تو احساس ہی نہیں تھا ۔ اللہ تعالیٰ آپ کواس کا بہت سارا اجر دے کہ آپ نے مجھے اس پریشانی سے نکالا ۔ گھنٹہ ڈیڑھ کی گپ شپ کے بعد وہ ہسنتا مسکراتا رُخصت ہوا ۔

  مجھے اس ساری کہانی سےجو نچوڑ ملا وہ یہ ہے کہ بیوی بچے، رشتہ دار ، یار دوست، کاروبار سب اپنی جگہ، آخرت کی تیاری خدمتِ خلق  اپنی جگہ، لیکن اپنے آپ کے آرام، تفریح اور سکون کی فکر کرنا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے ۔ جس کے بارے میں ہم میں سے اکثر بالکل بے فکر اور بے پرواہ ہیں ۔اس طرح روز بروز ڈپریشن، ہائی بلڈپریشر ، بے سکونی اور بے خوابی جیسے پریشانیوں کا شکار ہورہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ہمارے کام کرنے کی استعداد بھی کم ہورہی ہے اور ہم اپنے ساتھ ساتھ اپنے متعلقین کو بھی پریشان اور بیماربنارہے ہیں ۔

 (تحریر : عبداللہ سیماؔب)