حضرت لقمان علیہ السلام نے ایک خاص نصیحت یہ فرمائی کہ جب تم دستر
خوان پر ہو تو اپنے حلق کی حفاظت کرو۔
اس نصیحت کے دو مطالب ہیں ۔
اول یہ کہ زیادہ کھانے سے بچو کیونکہ زیادہ کھانے سے معدہ خراب ہوتا
ہے اور سارے جسم کی صحت معدے پر موقوف ہے اور زیادہ کھانے سے وزن بھی زیادہ ہوجاتا
ہے ۔ اسی لیے ہمارے دین مبین میں بھی یہی تعلیم دی گئی ہے کہ کھانے کے دوران اپنے
پیٹ کے تین حصے کرلینے چاہیئں ۔ ایک کھانے کے لیے ، ایک پانی کے لیے اور ایک ہوا
یعنی سانس لینے کےلیے ۔۔۔
اس نصیحت کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنے حلق کو حرام لقمہ سے بچاؤ ۔
اور کھانے سے پہلے دیکھ لو کہ تمھارےحلق میں مشتبہ کھانا تو نہیں جارہا ہے ۔
کیونکہ یہ ایسا زہر ہے جوتمھارے دین اور دنیا دونوں کو برباد کرنے کے لیے کافی ہے۔
حرام کی توبالکل کوئی بات ہی نہیں ہے ۔حرام کھانے کا توتصور ہی نہیں کرنا چاہیے ۔ اللہ نہ
کرے اللہ نہ کرے اگر کسی کے حلق میں گیا بھی تو اس کا نتیجہ تو لازماََ سو فی صد
خراب اور تباہی والاہوگا۔ کیوں کہ جس کے پیٹ ایک لقمہ بھی حرام کا گیا اس عبادت
غیر یقینی ہوجاتی ہے، دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔جو گوشت حرام سے بنتا ہے اس کا
بہترین ٹھکانہ جہنم ہے۔ اس لیے اس موضوع پر بات کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی ہے۔حلال کے بارے می بھی محتاط اور صابر ہونے کا
ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔
آج کل عام مشاہدے میں آرہا ہے کہ ہر کوئی کسی نہ کسی بیماری میں
مبتلا ہونے کا رونا رو رہاہے ۔ سلام دعا کے بعد جو پہلا کلام نکلتا ہے وہ تقریباََ
اسی نوعیت کا ہوتا ہے ۔ فلاں مسئلہ ہے ، فلاں ڈاکٹر کے پاس گئے تھے ، فلاں فلاں
ٹیسٹ کروائے ہیں ، فلاں میڈیسن دیے ہیں ، فلاں تاریخ کو پھر بُلایا ہے۔ اپنا دکھڑا
تو اپناہوا اگر کبھی باپ سے بیٹے کا پوچھیں ، خاوند سے بیوی کا پوچھیں ، بیٹی سے
ماں کا پوچھیں یا بھائی بہن میں سے کسی ایک سے دوسرے کا ۔ جواب تقریباََ یہی ملتا
ہے کہ طبیعت ٹھیک نہیں رہتی ۔ڈاکٹرنے یہ کہا اور یہ نہیں کہا۔ یہ کھانے کا کہا ہے
اور یہ نہیں کھانے کا کہا ہے۔
اگر ہم ایمانداری سے بات کریں تو کیا کبھی ہم نے بیمار ہونے سےپہلےان
باتوں کا اتنا خیال رکھا ہے کہ یہ کھانا ہےاور یہ نہیں کھانا۔اگر ہم یہ سب کچھ
بیمار ہونے سے پہلے کرتے تو کبھی بیمار ہی نہ ہوتے ۔
اسی لیے کہا گیا ہے کہ دسترخوان پر حلق کی حفاظت کرنی چاہیے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
(عبداللہ
سیماؔب)