تھینک یُو فیس بُک، میرے منہ سے بے اختیار نکلا تو کئی آنکھوں نے مجھے چند لمحوں کے لیے
گُھورا۔ جن میں سے اکثریت میں حیرت پائی گئی۔ان حیرت زدہ نظروں کو نظر انداز کرتے
ہوئے میں اپنے سمارٹ فون میں لگارہا۔ ساتھ میں چائے کی چسکیاں بھی لیتا رہا۔ایک
قدرے بزرگ شخص نے کھنکارکر گلا صاف کیا ۔تو مجھے پتہ چل گیا کہ اس نے اپنی توپوں کا
رُخ میری طرف کر لیاہے۔اس لیے میں نےاپنی
گھبراہٹ چھپانے کی کوشش میں غیر دانستہ طور پر اتنی لمبی چسکی لی کہ آواز پورے حال
میں شررر کرتے ہوئے پھیل گئی۔گھبراہٹ میں دوسری چسکی لی تو وہ پہلی چسکی سے بھی لمبی اور تیز ہوگئی ۔ نتیجتاََ میں نے کپ میز پر رکھا اور جس طرف سے گلا صاف
کرنے کےلیےکھنکارنے کی آواز آئی تھی ۔ اس
سمت میں مسٹر بین کے انداز میں دیکھنے لگا۔
وہ بزرگ اُٹھ کر میرے پاس تشریف لائے اور ساتھ بیٹھنے کے
لیے اجازت طلب کی ۔ میں نے کھڑے ہوتے ہوئے خوش دلی سے سامنے والی کرسی تشریف رکھنے
کے لیے پیش کی۔ اُن کی لیے چائے منگوائی تو انھوں نے آہستہ سے کہا کہ چینی کم۔ جس
سے ظاہر ہوا کہ وہ حضرت دوسروں سے بہت جلد مانوس ہونے اور گل مل جانے والے ہیں ۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے اپنا تعارف کرنے کے بعد کہا کہ ماشاء اللہ آپ
اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خاصے دین دار نظر آتے ہیں ۔ ابھی کچھ اور کہنے والے تھے کہ
میں نے ان کی بات پوری کی اور کہا کہ 'اور اصل میں ہیں نہیں'۔ انھوں نے ہنستے ہوئے
معذرت خواہانہ انداز میں صفائی دی اورکہا کہ نہیں نہیں میرا یہ مطلب نہیں ہے۔ میں
کہنا چاہ رہا ہوں کہ آپ حلیے سے دین دار اور اعلی تعلیم یافتہ نظر آرہے ہیں ۔ ساتھ
میں آپ فیس بک نہ صرف استعمال کرتے ہیں بلکہ ابھی چند منٹ پہلے آپ کے منہ سے اس کے
لیے شکرگزاری کے الفاظ بھی نکلے ہیں۔ اس
کی کیا وجہ ہے؟ اگر آپ بُرا نہ منائیں تو مختصر الفاظ میں وضاحت کردیں ۔
کیوں کہ مجھے لگ رہا ہے کہ آپ ہوٹل میں صرف چائے پینے آئے ہوئے ہیں ، وقت گزاری کے
لیے نہیں ۔ مجھے ان کے کھنکارنے سے جتنی گھبراہٹ ہوئی تھی اس سے کئی گنا زیادہ خوش
گوار حیرت ہوئی کیوں کہ ان کے اندازے سو فی صد درست تھے ۔
وہ پوری طرح میری طرف متوجہ تھے ۔ میں نے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ' آپ سے مل کر واقعی بہت خوشی
ہوئی کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کو اچھے برے کی نہ صرف
تمیز ہے بلکہ یہ فکر بھی لاحق ہے کہ معاشرہ بگاڑ کی طرف جانے سے روکا جائے۔ جہاں
تک میری دین داری کا تعلق ہے وہ اللہ تعالی بہتر جانتا ہے ۔ ہماری ٹوٹی پھوٹی
کوششیں پتہ نہیں قبول بھی ہورہی ہوں گی کہ نہیں ۔ البتہ اعلی تعلیم یافتہ بھی ہوں
اور تھوڑا جلدی میں بھی ہوں۔ بہرحال مختصر بات کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ کیوں کہ
آپ کے ساتھ شئیر کرنے سے مجھے بھی اپنے مؤقف کے درست غلط ہونے کا اندازہ ہوجائے گا'۔یہاں
پر یہ ذکر کرنا نہایت ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ اتنی دل چسپی سے میری بات سن رہے تھے
کہ میر ادل چاہ رہا تھا کہ میں اتنا بولوں اتنا بولوں کہ اپنے دل کا سارا غبار
نکال لوں کیوں کہ آج کل ہمیں اگر دکھ ہے تو اسی بات کا کہ کوئی درد دل سمجھ ہی
نہیں رہا تو کسے اور کیسےبتا ئیں ؟ میں نے مزید کہا کہ آپ مجھ سے زیادہ اچھی طرح
جانتے ہیں کہ ایک وقت تھا ، کہ ہم دوستوں اور رشتہ داروںکو خط لکھا کرتے تھے۔ جن
کا جواب مہینوں نہ صحیح تو ہفتوں سے پہلے تو کسی طرح بھی نہ آتا۔اس کے بعدتار یعنی
ٹیلی گراف کا نظام متعارف ہوا ۔زیادہ جلدی ہوتی تو تار بھیجوایا جاتا۔ اس کے بعدفون
آئے ۔ پرانا اور پھر نیا نظام ِ فون ایک الگ کہانی ہے۔ اس کے بعد موبائل فون کی
تشریف آوری ہوئی ۔ رفتہ رفتہ ترقی ہوتی گئی ۔ پہلے تو ہم صرف کال کرنا جانتے تھے ۔
اب تو کال کی بھی قسمیں ہیں ۔مثلاََ آڈیو
کال اور ویڈیو کال ۔لائیوویڈیو ایک اور زبردست آپشن ہے ۔رہ گئی فیس بک کی بات تو
آپ یوں سمجھیں کہ یہ ایک میلہ ہے جس میں ضرورت اور تفریح کی ہرچیز موجود ہے۔اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم
ضرورت پوری کرتے ہیں ، تفریح کا سامان کرتے ہیں یا ضیاع وقت میں لگ جاتے ہیں ۔جس
طرح لوگوں تک کوئی پیغام پہنچانے کے لیے میلے میں اعلان کرایا جاتا ہے ۔بالکل اسی
طرح اگر ہم کوئی پیغام کسی فرد واحد کے بجائے عوام الناس تک پہنچانا چاہتے ہیں ۔
تو اس کے لیے فیس بک بہت اچھا پلیٹ فارم یا ذریعہ ہے ۔ اکثر معلومات ہمیں فیس بک
سے ہی ملتی ہیں جن کی وجہ سے بہت زیادہ آسانی پیدا ہوگئی ہے ۔ ایسے میں اگر کوئی
تھینک یو فیس بک کہے تو میرا خیال ہے کہ وہ غلط نہیں کہہ رہا ۔
فیس بک کا غلط یا فضول استعمال واقعی اپنے اندر بہت زیادہ
خامیاں لیے ہوئے ہے ۔ لیکن اچھائی اور برائی تو ہر شئے کے اندر موجود ہوسکتی ہے
۔اگر کوئی شخص کسی شئے کی اچھائی سے فائدہ اُٹھانے کی بجائے اس کی برائی کو
زیراستعمال لائے تو اس میں اس شئے کی تو کوئی غلطی نہ ہوئی نا۔ہمیں چاہیے کہ ہر
نئی ایجاد کو اپنی ضرورت کے مطابق استعما ل کریں ۔ اپنے فائدے اور نقصان کا ہمیں بہت
اچھی طرح ادراک ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص سیاسی مباحثوں یا مسلک سے متعلقہ فروعی
اختلافات کو ہوا دینےکے لیے فیس بک یا کسی اور
پلیٹ فارم کو استعمال کرے تو اس میں فیس بک کا تو گناہ نہیں ہے۔ کافی دیر سے میری باتوں کو بہت اشتیاق سے سنتے
ہوئے ان کے چہرے پر اچانک فکرمندی کے سائے منڈلانے لگے تو میں نے وقفہ دیا تاکہ وہ
کچھ کہہ سکیں ۔میرا اندازہ درست نکلا ۔ میرے خاموش ہونے پر انھوں نے پوچھا کہ فیس
بک کے منفی پہلوؤں سے کیسے بچا جائے ؟ میں نےعرض کیا کہ جیسے جنگل میں کسی کام سے
جاتے ہیں اور جھاڑیوں سے اپنے آپ کو اور اپنے لباس وغیرہ کو بچاتے ہوئےاپنا مدعا
پوراکرکے واپس ہوتےہیں ۔بالکل اسی طرح جو لوگ آپ کے مزاج کے مطابق ہیں ان کو فرینڈ
بنائیں اور جو نہیں ہیں ان کو اَن فرینڈ کردیں ۔ایسے گروپس میں شمولیت نہ کریں جو
فضول قسم کے مباحث میں لگے رہتے ہیں ۔ وہ حضرت بہت زیادہ خوش ہوئے میرا شکریہ ادا
کیا۔مجھ سے میری فیس بک آئی ڈی کا پوچھا ۔ فرینڈ ریکوسٹ قبول کرنے کا کہا اور جزاک
اللہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئے۔
آخر میں ایک گزارش کے ذریعے سے آپ سب کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا
: وہ یہ کہ اے میرے ہم وطن اور ہم
ملت ساتھیو! کیا میں غلط کہہ رہا ہوں ۔ اگر نہیں تو آپ ساتھ
کیوں نہیں دے رہے ۔ کیوں اس دلدل سے باہر نہیں آتے ؟
نوٹ : اگر آپ اصلاحی تحریریں ،اردو پشتو شاعری، دینی اور
تعلیمی معلومات اور طنز و مزاح پسند کرتے ہیں تو اس کے لیے
تھوڑا حوصلہ کریں ۔ صرف فیس بک پیکیج نہیں بلکہ نیٹ پیکیج کیا کریں اور ہمارے ویب
سائٹ پر اپنی پسند کی تحریر یں اور ویڈیوز دیکھیں ۔آپ کی آسانی کے لیے ویب سائٹس کے نام دیے جارہے ہیں۔
and youtube channel : Seemab TV
(تحریر :
عبداللہ سیماؔب)