میل اور فیمیل پرائمری ٹیچر

 میل اور فیمیل پرائمری ٹیچر



"احمد ! یہ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے ؟کم از  کم اپنی ناک تو صاف کیا کریں۔اور ثوبیہ آپ  کیوں روئے جارہی ہیں ؟ چُپ کریں بس مزید دماغ نہ کھائیں" اُس نے کلاس میں داخل ہوتے ہوئےبیزاری سے کہا۔ زبیر احمد کابطور پرائمری سکول ٹیچر تیسرا سال مکمل ہونے کو تھا۔ان تین سالوں نے اُسے تھکا دیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ چھوٹے بچوںکو سنبھالنا اس کے بس سے باہر ہورہا تھا۔


زبیر احمدکی بیوی تحریم احمد تقریباََ آٹھ سال سے بطور پرائمری سکول ٹیچرکام کررہی تھیں۔ بریک بند ہونے پر وہ کلاس میں داخل ہوئیں تو قاسم اور جنید آپس میں گتھم گتھا تھے۔ "ارے ارے، یہ کیا کررہے ہیں آپ؟ چلیں چھوڑیں شاباش۔ اچھے بچے بھی کبھی لڑتے ہیں؟" " اس نے مجھے دھکا دیا تھا" قاسم نے روتے ہوئے کہا" کوئی بات نہیں ، آپ بہت اچھے اور پیارے بچے ہیں۔ آپ روئیں نہیں۔ آجائیں ادھر میری گود میں بیٹھ جائیں" تحریم قاسم کو چُپ کرانے میں لگی ہوئی تھیں کہ مہوش نے اپنی قمیص دکھاتے ہوئے شکایت کی کہ اعجاز نے بریک کے دوران سموسے کی چٹنی سے خراب کردی ہے۔ تحریم نے قاسم کو چُپ کراکر اس کی سیٹ  تک پہنچایا اور مہوش کی قمیص دھلوانےاُسے کلاس سے باہر لے گئیں۔

 

اِ س سے ملتی جلتی صورت حال تقریباََ اسی نوے فیصدسکولوں میں ہوتی ہے جن کا  اساتذہ کرام کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔آئیے ذرا اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔ میل ٹیچرز پڑھانےکے لحاظ سے ہر طرح سے بہت زبردست اور پُر اثر ہوتے ہیں۔ کوئی بھی سبجیکٹ ان کے حوالے کردیں تو بحسن و خوبی پڑھا لیتے ہیں۔ عمیق سے عمیق تر نکتے کی چٹکی بجاتے وضاحت اور تشریح کردیتے ہیں۔ کبھی کبھی تو انسان کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا کہ کوئی بی ایس  اور ماسٹر لیول کا بندہ خود کو بالکل پہلے سال کے سکول کے بچے جتنا بنا لے گا۔ وہ بچے کو ایسے انداز میں پڑھاتے ہیں جیسے کہ بچے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کوسمجھانے کےلیے ایسی مثالیں اور شواہد پیش کرتے ہیں کہ دیکھنے اور سننے والا سمجھنے لگے کہ ٹیچر تو خود بالکل بچے کی طرح سوچ رہا ہے۔ اس کے احساسات واقعی چھوٹے بچے کی طرح ہوجاتے ہیں۔

 

اس ضمن میں زیادہ کمال تو نوجوان اور غیر شادی شدہ یا یوں کہہ لیں کہ وہ ٹیچرز جن کی ابھی اولاد نہیں ہے ،کی ہےجن کا چھوٹے بچوں کو ہینڈل کرنے اور ان کی ضرورت اور خواہش کے مطابق ذاتی اور گھریلو تجربہ نہیں ہوتا ،بلکہ پیشہ ورانہ اہلیت کی  وجہ سے وہ اتنا عمدہ کررہے ہوتے ہیں۔یہاں پر جنس کی کوئی تفریق نہیں ہے کیوں کہ میل ٹیچرزہی کی طرح فیمیل ٹیچرز بھی پڑھانے سکھانے کے عمل میں بہت اچھی طرح سے سرخ رُو ہورہی ہیں۔ یہ بات ہم صرف  پرائمری ٹیچرز کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ تمام ٹیچرزکو مدنظر رکھ کرببانگِ دہل کہہ سکتے ہیں کہ سوائے ایک قلیل تعداد کے ، جو کہ ہر شعبہ زندگی میں ہوتا رہتا ہے، اکثروبیشتر ٹیچرز اپنے فرائض نہ صرف تن دہی سے ادا کررہے ہیں بلکہ بہت اچھی طرح تعلیم کی روشنی پھیلانے اور اچھی تربیت فراہم کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ لیکن چوں کہ یہاں ایک مخصوص کیٹیگری کے حوالے سے ایک نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی جارہی ہے اس لیے زیادہ معلومات اور تجربات اسی کیٹیگری سے متعلق ہی سپرد قلم کی جارہی ہیں۔

 

یہ امرِ حقیقی ہے کہ چھوٹے بچوں کو ناک صاف کرنے، باتھ روم جانے، کلاس میں اُٹھنے بیٹھنے ، چھینکنے، کھانسنے اور دوسری چھوٹی موٹی باتوں کی جتنی بھی تربیت گھر پر دی جائے، پھر بھی وہ نئے ماحول میں جانے پر کافی ساری لغزشیں کرتے ہی رہتے ہیں۔ اس لیے ابتدائی جماعتوں کے ٹیچرز کو  اکثر مذکورہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان ساری پریشانیوں کو جتنا خوبی کے ساتھ فیمیل ٹیچرز حل کرسکتی ہیں ،اتنا  بہتر انداز سے میل ٹیچرز نہیں کرسکتےجس کی بنیادی وجہ فطرت اور مزاج ہے۔چوں کہ عورت ذات فطرتاََ اور مزاجاََ ایسی تخلیق کی  گئی ہے کہ ان ساری چیزوں کو سنبھال پائے گی اور زیادہ مشکل بھی محسوس نہیں کرے گی۔جب کہ  مرد ذات کو بمقابلہ عورت کے ان پریشانیوں کو حل کرنےمیں کافی سے بھی زیادہ دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی امر مانع نظر  نہیں آتا کہ حضرات کے مقابلے میں خواتین ساری پرائمری نہ صحیح توبالکل ابتدائی جماعتوں کے  لیے تو زیادہ موزوں ہیں ہی۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے بھی میل ٹیچرز ہیں جو کہ چھوٹے بچوں کو فیمیل ٹیچرز سے بھی زیادہ اچھی طرح ڈیل کرتے اور سنبھالتے ہیں ۔ چھوٹی یعنی ابتدائی جماعت کے بچوں کی وہ اس طرح تربیت کر رہے ہوتے ہیں کہ دیکھ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ پڑھانے لکھانے اور سکھانے کے ساتھ ساتھ  بچوں کی چھوٹی چھوٹی شکایات کو رفع کرنے، ان کی  ناسمجھی میں کی گئی شرارتوں کو برداشت کرنے اور ان کے کیے گئے ایسےاعمال اور افعال ، جن سے انسانی طبیعت کو تھوڑی بہت کراہت اور ناپسندیدگی محسوس ہوتی ہے، کو ایسے خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں کہ وہ داد کے مستحق ٹھہرتےہیں ۔لیکن چوں کہ چند مخصوص افراد یا تعداد میں کم لوگوں کی کسی ایک خامی یا خوبی کو عمومی افراد یا اکثر لوگوں پر لاگو نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لیے چند مخصوص ٹیچرز کی کسی خوبی یا خامی کو تمام ٹیچرز کے ساتھ متعلق نہیں کیا جاسکتا۔جس طرح سیب کا عمومی ذائقہ میٹھا ہوتا ہے اور چند ایک کے تُرش  ہونے پر سیب   کی پوری جنس کو تُرش نہیں گردانا جاسکتا ۔ بالکل اسی طرح چند ایک ٹیچرزکی کسی میدان میں کامیابی یا ناکامی کو تمام ٹیچرز کی کامیابی یا ناکامی نہیں کہا جاسکتا۔

 

یہاں ایک بات اور بھی قابل توجہ ہے کہ ایسے سکول بھی ہوں گے جہاں فیمیل ٹیچرز کی تعیناتی میں مشکلات درپیش ہوں گے ۔وہاں پر میل ٹیچرز کو خصوصی تربیت بھی دی جاسکتی ہے اور ایسے ٹیچرز کا انتخاب بھی کیا جاسکتا ہے جو کہ نرم مزاج، دریا دل ، ہنس کھ اور ٹیشن فری ہوں ۔اس طرح میل ٹیچرز کی ان ایمپلائمنٹ کا مسئلہ بھی ہوسکتا ہے تو اس کا بھی کوئی متبادل نکالا جا سکتا ہے۔ ایک حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوسری جماعت تک کےتمام  بچوں کوبلا تفریق  جنس کے صرف گرلز پرائمری سکولوں میں ہی رکھا جائے ۔ تیسری سے پانچویں تک بلا تفریق جنس کے بوائز پرائمری سکولوںمیں پڑھائے جائیں ۔اس طرح مطلوبہ مقاصد بھی حاصل ہوں گے اورمزید مسائل پیدا ہونے کا خطرہ بھی مول نہیں لینا پرے گا۔    

 

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں تعلیم و تربیت کے حقیقی معنی سمجھنے اور عمل میں لانے  کی توفیق عطا فرمائے، اور ذاتی مفادات کو وسیع تر قومی مفادات پر قربان کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین

  

(تحریر  : عبداللہ سیماؔب)