میں اکثر بھُول جاتا ہوں

میں اکثر بھُول جاتا ہوں

میں اکثر بھول جاتا ہوں

کوئی ہے منتظر میرا

اس کا اداس ہے چہرہ

اس کی خوشی کی خاطر ہی

مجھے آج جلدی جانا ہے

میں اکثر بھُول جاتا ہوں

 

میرے بِن کون ہے اس کا

جِس کا وہ دیکھ لے رستہ

کہیں پھر دیر ہونہ جائے

مجھے وقت پر پہنچنا ہے

میں اکثر بھُول جاتا ہوں

 

مجھے ایک کام آپڑا

کہ جس کے پیچھے جا پڑا

رات گئے کال آگئی

کیا گھر آج نہیں آنا

میں اکثر بھُول جاتا ہوں

 

بھاگتے بھاگتے جو گھر گیا

سمجھو کہ میں بس مر گیا

بچہ بِن کھائے سویا تھا

کہ میرے ساتھ کھا نا ہے

میں اکثر بھُول جاتا ہوں


ایساتو روز ہوتا ہے

میرے جاتے وہ سوتا ہے

میرے نصیب میں سیماؔب

اس کا بس ماتھا چومنا ہے

میں اکثر بھُول جاتا ہوں

 

( عبداللہ سیماؔب )