ناول : "میں ہی کیوں؟" قسط نمبر : 02

ناول   :    "میں ہی کیوں؟"  قسط نمبر : 02


"وہ جی میں کہہ رہی تھی"   جب سکینہ کے دو دفعہ پکارنے پر کرامت علی کچھ نہ بولا تو اُس نے قدرے اونچی آواز میں کہا۔"آپ سے کہہ رہی ہوں جی" کرامت علی نے ہڑبڑا کر پوچھا " جی جی !کیا کہہ رہی ہیں؟" سکینہ نے فرط جذبات سے مغلوب ہوکر بتایا" وہ جی آپ دادا بن گئے ہیں" کرامت علی جو کہ قرآن  پاک پر جھکا ہوا تھا خوشی سے یک دم سیدھا ہوگیا"الحمدللہ، ما شاء اللہ ۔۔ نیک بخت پہلے کیوں نہیں بتایا؟ سکینہ کی ہنسی بے قابو ہو گئی " ارے صاحب ! بچی ابھی پیدا ہوئی ہے تو میں بھی ابھی ہی بتاؤں گی نا" کرامت علی جھینپ سا گیا "اوہ اچھا اچھا، کیسی ہے ہماری گڑیا اور بہو بٹیا کی طبیعت؟" سکینہ نے تسلی دی " اللہ کا شکر ہے دونوں بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں " : اللہ تیر الاکھ لاکھ شکر ہے" کرامت علی قرآن پاک کی طرف متوجہ ہوگئے۔


راشدہ کی خوشی کا آج ٹھکانہ نہیں تھا ۔ ساجدہ کو سکول میں داخل کرانے کے لیے کرامت علی نے ماسٹر صاحب سے اجازت لے لی تھی اور آج اس کا  سکول کا پہلا دن تھا۔ راشدہ نے رات ہی سے اُسے نہلا کر بالوں میں تیل لگایا تھا۔ صبح نماز وغیرہ سے فراغت کے بعد ناشتہ بنانے لگی تو اس کے دل میں پھول کھل رہے تھے۔با ربارساجدہ کو دیکھ رہی تھی جو کہ ابھی جاگی نہیں تھی۔ اُسے اپنی بچی چھوٹی سی ماسٹرنی لگ رہی تھی ۔ کرامت علی کے گھر  میں آج جیسے عید کا دن تھا۔سکینہ ساجدہ کو جگانے لگی تو ساتھ میں شکیلہ اور اکبر بھی جاگ اُٹھے۔ اس نے اکبر کو گود میں اور شکیلہ کو انگلی پکڑا کر باورچی خانے تک پہنچایا۔ساجدہ سوئی کی سوئی رہ گئی۔ سکینہ نے پھر سے اُسے جگانے کی کوشش کی تو ساجدہ نے آنکھیں ملتے ہوئے اُسے دیکھا"شاباش میری گڑیا! آج ہم سب بہت خوش ہیں ، آپ سکول جائیں گی" ساجدہ نے ضد کرتے ہوئے کہا " نہیں  میں نہیں جاتی،  دادی شکیلہ کو بھیجیں نا یا پھر آپ بھی میرے ساتھ چلی جائیں ؟" سکینہ نے اس کے ساتھ جانے کاوعدہ کرلیا اور پیاراور لاڈ کے ساتھ ناشتے کے لیے لے آئی۔پھر تو روز کامعمول بن گیا ۔ وہ صبح ساجدہ کو لے کر سکول پہنچاتی اور خود سکول سے تھوڑا فاصلے پر بیٹھ جاتی جہاں ساجدہ کو نظر آتی۔ کرامت علی اور راشدہ نے اسے کئی مرتبہ سمجھایا کہ بچی کی عادت خراب ہوجائے گی لیکن وہ نہ مانی ۔ 


"امی آج پھر سبزی بنائی ہے؟" ساجدہ نے بُرا سا منہ بنا کر کہا تو راشدہ سے رہا نہ گیا" بیٹی سبزی کی دکان سے گھر میں سبزی ہی آتی ہے میں اُسے پکاتے ہوئے گوشت یا کچھ اور تو بنا سکتی نہیں اور پھر سبزی کھانے سے تو صحت اچھی ہوتی ہے" لیکن ساجدہ نہیں مانی اور دادی کے پاس چلی گئی ۔ دادی نے راشدہ سے کچھ بناکر دینے کا کہا تو اس نے سکینہ کی بات مان تو لی لیکن سوچنے لگی کہ کہیں ساجدہ زیادہ لاڈ کی وجہ سے خراب نہ ہوجائے ۔ اس سوچ کے ساتھ اسے ہلکی سی سردی محسوس ہوئی اور منہ سے بے اختیار اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم اور استغفراللہ استغفراللہ نکلا۔ پھر اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئےسوچا کہ بچی ہے بڑی ہوکر خود ہی ٹھیک ہوجائے گی۔


دن مہینوں اور مہینے سالوں میں بدلنے لگے۔ ساجدہ کو سکول میں پانچ سال ہوگئے تھے ۔  وہ پاس ہوکرپانچویں اورشکیلہ تیسری میں ہوگئی تھی ۔آج اکبر بھی سکول میں داخل ہونے والا تھا۔کرامت علی ویسے توماسٹرصاحب سے ملنے اور بچوں کی تعلیمی حالت جاننے کے لیے ہفتے ڈیڑھ میں سکول جایا کرتا تھا۔ آج خصوصی طور پر اکبر علی کے ساتھ اُسے داخل کروانے جارہا تھا۔راشدہ کے بچوں میں سے ڈھائی سالہ اصغرعلی اور دو مہینے کا اسلم علی رہ گئے تھے ۔ بڑے تین بچے سکول جانے لگے تھے۔راشدہ ان کو رخصت کرنے کے لیے بڑے دروازے تک ان کے ساتھ گئی ۔ وہ ساجدہ کو خصوصی طور پراکبر کے بارے میں ہدایات دے رہی تھی ۔لیکن ساجدہ اس کی باتوں کےجواب میں ایک ہی بات دہرائے جارہی تھی"امی خود رکھے گا نا اپناخیال، اور پھر شکیلہ بھی تو ہے میں ہی کیوں رکھوں؟"  راشدہ نے بہت مشکل سے اسے اکبر کا خیال رکھنے پر تیار کیا۔


سکول میں چھٹی ہوگئی تھی ۔ سب بچے چھٹی کا سن کرمین گیٹ کی طرف بڑھنے لگے تو ساجدہ بھی گھر کی طرف بھاگنے ہی والی تھی کہ ماسٹر صاحب نے اسے اکبر کو ساتھ لے جانے کا کہا۔گھر پہنچ کر اس نے امی کو صاف کہہ دیا کہ آج تو اکبر کو ساتھ لائی ہے کل سے خود آیا کرے ۔ راشدہ نے جیسے تیسے ضبط کر لیا۔اگلی صبح بچے سکول جانے لگے تو کرامت علی نے بھی ساتھ جانے کا اعلان کیا۔ راشدہ نے اکبر کا ہاتھ ساجدہ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا "بیٹی آپ بڑی ہیں اس لیےسکول میں چھوٹے بھائی کاخیال رکھیں" ساجدہ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا "امی آپ مجھے ہی کہتی ہیں ، شکیلہ کوکیوں نہیں کہتی" راشدہ نے نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن ساجدہ ایک ہی بات کی رٹ لگائے ہوئے تھی کہ "میں ہی کیوں رکھوں خیال ، شکیلہ کیوں نہیں" کرامت علی دروازے سے نکل رہا تھا کہ پیچھے سےایک غیر متوقع آواز نے اس کے قدم روک لیے۔اس نے فوراََ مُڑکر دیکھا۔

تیسری قسط چند ہی دن میں اپ لوڈ کردی جائے گی ۔ قارئین کرام ویب سائٹ کو فالو کریں تاکہ کوئی قسط یا کوئی پسندیدہ سلسہ miss نہ ہو۔

فالو کرنے کے لیے پیج کے اوپری حصے کےدائیں طرف فالو بٹن پریس کریں ۔ شکریہ  

( تحریر:عبداللہ سیماؔب )