تا قیامت جو سلامت ہمیں خدا رکھتے
تو بھی یہ جان لوکہ تیری تمنا رکھتے
دل دیدیا ہے جان دیتے خوشی خوشی سے
ان کی دہن پہ اگر تھوڑا بھروسہ رکھتے
ان کی نظروں کی تاب نہ لا سکے تو کیا ہے؟
دل تو جاتا ہی اپنے پاس اور کیا رکھتے؟
یہ تو اچھا ہوا کہ آئے نہ وہ ہم سے ملنے
کہیں ممکن ہی نہ تھا ، ہم
کہ حوصلہ رکھتے
تیری دنیا کا یہ دستور نہیں ہے، ورنہ
ہم طشت از بام تیری چاہ کا قصہ رکھتے
کسی کا ہو کر نہ رہے ہیں زمانے بھر میں
ورنہ قدرت ہے اپنے ساتھ زمانہ رکھتے
وہ جو لوٹ لیتا تھا سیماؔب ہمیں وعدوں میں
بھلا اس شخص سے ہم کب تک واسطہ رکھتے
( عبداللہ سیماؔب )