شعراء کے لیے خصوصی طور پر اورغیر شعراء کے لیےعمومی طور پر
اہم پیغام
نوٹ: قارئین کرام ! اس تحریر کا مقصد نہ کسی کی دل آزاری ہے
اور نہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی کوشش ہے ۔ بلکہ اس کا مقصد ایک معاشرتی خامی کی
طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو سمجھنے اور عمل کرنےکی توفیق
عطا فرمائے ۔
گیارھویں یا بارھویں جماعت کی اردو کی درسی کتاب میں لکھتے
ہیں کہ اکثر شعراء حضرات کی یہ کوشش ہوتی
ہے کہ کوئی ان کا کلام سنے ۔ جب اور جہاں کو ئی ملا اور انھوں نے اپنا کلام سنانا
شروع کردیا ۔ مولانا الطاف حسین حالی ؒ کے
بارے میں ہے کہ ان کی طبیعت میں اتنا انکسار اور حیا تھی کہ کسی کی فرمائش پر بھی
اپنا کلام سنانے پر تیار نہ ہوتے تھے۔اللہ تعالیٰ کبر و ریا سے امان دے ہمار ابھی
کچھ ایسا ہی حال ہے مولانا حالی کوجس طرح کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ہمیں
بھی بالکل اسی طرح کے لوگوں کا سامنا کرنا
پڑتا ہے۔ اور ہمارا بھی وہی حال ہوتا ہے
جو مولانا حالی کا ہوا کرتا تھا۔مذکورہ بالا کتاب
میں ہے کہ مولانا حالی کسی سے بھی
کلام سننے کی فرمائش نہیں کرتے تھے اور اگر کبھی کوئی آپ سے فرمائش کربیٹھتا تو آپ
معذرت کردیتے اور بصد اصرار بھی اپنا کلام سنانے پر تیار نہ ہوتے اور وجہ یہ بتاتے
کہ کچھ یاد نہیں ہے اس لیے سنا نہیں سکتا ۔
آپ کلام سننے اور سنانے کے حوالے سے ہمیں بھی مزاج کے
اعتبار سے مولاناکی فوٹو کاپی ہی سمجھ لیجیے ۔ کوئی کتنا بھی اصرار کرے ہمیں بالکل
بھی اچھا نہیں لگتا کہ موقع محل کا لحاظ کیے بغیر شروع ہوجائیں ۔اس سلسلے میں ایک
نہایت ہی قابل قدر اور سبق آموز واقعہ آپ
کے گوش گزار کردیتا ہوں ۔ غرض اس میں یہ ہے کہ اگر اللہ تعالی کے فضل سے آپ شاعر
ہیں تو بھی اور اگر خدانخواستہ شاعر نہیں ہیں تو بھی اس سےکچھ مفہوم اخذ کرکے عمل شروع کردیں اور خود کو
بھی اور اپنی تخلیق یعنی شاعری کو بھی تذلیل اور بے قدری سے بچائیں ۔
ہواکچھ یوں ہے کہ آج یعنی 3جنوری 2021 سے تقریباََ نو دس سال
پہلے کی بات ہے جب بازار میں حبیب بینک کے پاس ہماری دکان سیماب موبائلز کے نام سے
ہوا کرتی تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان سے علاقے بھر میں اچھی خاصی نام و
مقام کی حامل تھی۔جہاں ویسے تو ایک دو لڑکے کام کیا کرتے تھے لیکن میں بھی فارغ
اوقات میں آکر بیٹھا کرتا تھا ۔
ایک دن میں عصر کے وقت دکان کے کاؤنٹر پر موجود تھا کہ دو حضرات اندر
آئے ۔ سلام کیا ۔ میں نےسلام کا جواب دے کر تشریف رکھنے کا کہا تو ایک حضرت تو
بیٹھ گئے جب کہ دوسرے کاؤنٹر پر آکر کھڑے
ہوگئے ۔ میں نے جی کہہ کر ان سے مدعا بیان
کرنے کی پیش کی تو انھوں نے بالکل غیر متوقع سوا ل پوچھا کہ یہ دکان آپ کے نام پر
ہے ؟میں نے جواب دیا کہ جی الحمدللہ ، اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے ہی اس کا مجازی
مالک بنایا ہوا ہے ورنہ اصل مالک تو وہ خود ہی ہے ۔وہ حضرت بڑے خوش ہوئے اور
توصیفی انداز میں کہنے لگے کہ بالکل بالکل ! بس ثابت ہوگیا کہ آپ ہی سیماب صاحب
ہیں ۔ میرے پوچھنے پر بتانے لگے کہ میری بات میں
ان کو اردو ادب کی جھلک نظر آئی ہے ۔ ان کا اصل مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ
یہ سیماب ہے کون جس کے نام سے دکان موسوم ہے؟
جب ان کو صاحب معلوم
ہوگیا کہ میں ہی وہ بندہ ہوں جس سے ملاقات کے متمنی ہیں تو انھوں نے پوچھناشروع کیا اور میں جواب دینے لگا ۔
سیماب صاحب ! آپ نے اردو میں ماسٹر کیا ہے ؟ میں نے کہا جی
ہاں ۔
وہ: کیوں ؟ میں : شوق کی وجہ سے۔
وہ : آپ شاعر ہیں ؟ میں : جی چھوٹا سا ۔
وہ: اردو یا پشتو ؟
میں : جی دونوں ، اللہ کے فضل سے ۔
وہ: نثر ؟ میں : جی
نثر بھی ۔
وہ : اردو یا پشتو ؟ میں : اردو، پشتو اور انگریزی ۔
جیسے جیسے میں
جوابات دیتا گیاان کی دل چسپی بڑھتی گئی اور بڑھتی ہوئی دل چسپی کے ساتھ ساتھ
سوالات بھی بڑھتے گئے ۔
وہ : شعراء میں کون
کون پسند ہیں ؟ میں : جس جس کا کلام اچھا ہے۔
وہ : اچھا سے مراد؟ میں : جو انسپائر کرے۔
وہ: آپ کو کس کس نے انسپائر کیا؟ میں : جس جس کا کلام اچھا
تھا ۔
ان صاحب نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ آپ بہت دل چسپ آدمی
ہیں ۔ میں نے کہا کہ سب کہتے ہیں لیکن پھر مکر جاتے ہیں ۔ انھوں نے دوسرا قہقہہ لگایا جو پہلے سے طویل اور شدید تھا
۔واقعی واقعی آپ واقعی بہت بہت دل چسپ آدمی ہیں ۔ میں نے کہا اللہ کافضل و احسان ہے ورنہ کہاں ہم اور کہاں یہ مقام ۔
جب ان کے قہقہے تھوڑے تھمے تو کہنے لگے کہ میں فلاں ہوں اور
فلاں فلاں ڈیپارٹمنٹ میں اتنا اتنا عرصہ رہ کر
گریڈ19 میں ریٹائر ہوچکا ہوں ۔ آپ کی بہت تعریف سنی تھی، اُسی وقت سے ملنے
کا بہت دل کررہا تھا ،لیکن آ نہیں پا رہا
تھا ۔ آج کسی کام سے بازار آیا تھا سوچا ملاقات کرلوں لیکن نہ تو آپ کا موبائل
نمبر تھا اور نہ کوئی اور ایڈریس وغیرہ ۔ بازار میں ایک دو دکانداران سے دریافت
کیا تو انھوں کہا کہ حبیب بینک کے پاس سیماب موبائلز والے ہیں آپ ان سے معلومات لے
سکیں گے ۔
الغرض ان صاحب نے ہم سے کلام سننے کی فرمائش کی
جو ہم نے یہ کہہ کر ٹال دی کہ ہمیں کچھ یاد نہیں ہے ۔ انھوں نے بہت اصرار کیا لیکن
ہم مسلسل معذرت کرتے رہے تو میر تقی میر ، غالب، علامہ اقبال، فراز پھر رحمان بابا
، خوشحال خان خٹک، حمزہ شنواری، خاطر آفریدی اور کئی شعراء کے مشہور اور ہردل عزیز
اشعار کا تذکرہ کیا اور کچھ سنائے بھی ۔آخر کارہماری طرف سے لگاتارمعذرت پر جو
قیمتی بات انھوں نے کی وہ مجھے آج تک یاد ہے اور ان شاء اللہ مرتے دم تک یاد رہے گی
۔
انھوں نے کہا کہ سیماب صاحب ! آپ صبح سے چوتھے شاعر ہیں جس سےہماری ملاقات ہورہی
ہے ۔ لیکن آپ پہلے ملنے والے تینوں شعراء سے مختلف ہیں ، کاش کہ وہ بھی آپ ہی کی
طرح ہوتے ۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ حضرت ! مجھ میں ایسا کیا ہے جو آپ باقی
شعراء کو بھی میری طرح کرنا چاہتے ہیں ۔ انھوں
نے نہایت سنجیدہ ہوکر کہا کہ حیا، خودداری، موقع محل کی پہچان اور اپنی قدروقیمت
کا احساس۔ کاش ان خوبیوں کو ہر شاعر
اپنالے تو نہ گھٹیااور سطحی کلام لکھا جائے گا اور نہ قیمتی اور اعلی کلام کی بے قدری ہوگی۔
حیا، خودداری، موقع محل کی پہچان اور اپنی قدروقیمت کا
احساس۔ حیا، خودداری، موقع محل کی پہچان اور اپنی قدروقیمت کا احساس۔ انھوں نے تین
بار ان الفاظ کو دہرایا ۔ میں ان کے لہجے
کے سحر اور الفاظ کی تاثیر میں کھو سا گیا ۔ انھوں نے رخصت ہونے کے لیے ہاتھ بڑھا
یا ۔ ہاتھ ملا کر السلام علیکم کہہ کر دکان سے نکل گئے ۔ جب تک میں اس سحر سے باہر
آتا وہ دونوں دکان سے نکل چکے تھے ۔ میں جلدی سے اُن کے پیچھے لپکا لیکن انھیں روک
نہیں سکا بلکہ انھیں ڈھوند ہی نہ سکا ۔ کیوں کہ میرے ہاں سے نکل کر وہ تھوڑے فاصلے پر موجود بیکری میں داخل ہوئے
تھے اور جب میں وہاں پہنچا تو بیکری والا موبائل پر اپنے گھر والوں سے بات کررہا
تھا ۔ مجھے اندر آتے دیکھ کر اُن کو ہولڈ کا کہہ کر میری طرف متوجہ ہوا تو میں نے
مذکورہ بندوں کا پوچھا تو اس نے موبائل میں کال ڈیوریشن دکھاتے ہوئے کہا کہ میں
پچھلے سولہ منٹ سے کال پہ ہوں جس کا مطلب ہے کہ کوئی گاہک آیاہی نہیں ہے ۔
نتیجہ کلام یہ ہے کہ میں یہ تو پتہ نہیں لگا سکا کہ وہ کون
تھے ؟ جن یا انس یا ملائک ۔ لیکن انھوں نے مجھے جو پیغام دیا ۔ وہ سوفیصد یاد
رکھنے اور عمل کرنے کے لائق ہے ۔ بلکہ مشعل راہ بنانے کے لائق ہے ۔
(تحریر :
عبداللہ سیماؔب)