مشترک باتیں

موبائل  سائلنٹ کرنے کے لیے جیب سے نکالا ہی تھا کہ کہ وہ بج اُٹھا ۔ سکرین پر نظر ڈالی تو سادہ خان لکھا ہوا نظر آیا۔ قدرے پریشانی اور گھبراہٹ کی صورت میں کال ریسیو کی ۔ کیوں کہ نمازِ فجر سے پہلے کسی کی کال آجانے کا مطلب ہی یہی نکلتا ہے ۔ کہ خدانخواستہ کوئی پریشانی پیش آگئی ہے ۔

"السلامُ علیکم سادہ خان بھائی !" ہم نے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔

"وعلیکم السلام  سیماب صاحب ! خیریت تو ہے نا ؟"  سادہ خان نےجواب دیا  ۔  پریشانی اُن کی آواز سے صاف ظاہر تھی ۔

میں نے کہا " الحمدللہ بالکل خیریت ہے ۔ آپ سنائیں ۔"

"چلیں اللہ کا شُکر ہے ۔ لیکن جب خیریت ہے، تو آپ کہاں ہیں ؟" سادہ خان نے ناراض ہوتے ہوئے کہا ۔

" میرے بھائی اس وقت مجھے کہاں ہونا چاہیے ؟" ہم نے نرمی سے جواب دیا ۔ اس دوران مسجد سے اقامت کی آواز آنے لگی۔

" سیماب صاحب ! اقامت شروع ہوگئی ہے ۔ جلدی بتائیں نماز کے لیے کیوں نہیں آئے گھر میں سب خیریت تو ہے نا " جواب آیا۔

ہم نے کہا " نہیں آیا کا مطلب ؟  میں تو مسجد پہنچ آیا ہوں "

سادہ خان کی آواز میں ناراضگی کی جگہ حیرت نے لے لی " مسجد میں کہاں پر ہیں؟"

میں نے جواب دیا " مسجد کے مین گیٹ میں داخل ہونے لگا ہوں ۔ کوئی ایمرجنسی نہ ہو تو بعد میں بات کرلیتے ہیں "

وہ تھوڑا چڑ چڑ اکر بولے " میں بھی مین گیٹ سے ہی داخل ہورہا ہوں ۔ آپ تو نظر نہیں آرہے ؟"

"ارے سادہ خان صاحب ! آپ کے والد محترم نے آپ کا نام سادہ خان بالکل صحیح رکھا ہے ۔ میں اپنے محلے کے مسجد کے مین گیٹ سے داخل ہو رہا ہوں اور آپ اپنے محلے کی مسجد یا کسی اور مسجدکے مین گیٹ سے داخل ہورہے ہوں گے تو میں کیسےنظر آسکتا ہوں ؟"

اُس نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا "عجیب آدمی ہیں آپ بھی۔   بابا جان کا نام کیوں لیتے ہیں ؟"

" اوکے جناب ، نماز کے بعد کال کرتا ہوں " مجھے اندازہ ہوگیا کہ کوئی ایمرجنسی نہیں ہے ۔ اس لیے تکبیر اولیٰ نہیں چھوڑنی چاہیے ۔ موبائل سائلنٹ کر کے جیب میں رکھا اور نماز میں شامل ہوگیا ۔نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے نکل رہا تھا کہ پھر  اُس کی کال آئی ۔ میں نے ریسیو کی ۔ سلام کے بعد کہنے لگا " آپ مجھے ایک بات بتائیں ۔ آپ جھوٹ کب سے بولنے لگے ہیں؟"

میں نے ہنستے ہوئے پوچھا " اللہ کے بندے میں نے آپ سےکب جھوٹ بولا ہے؟"

کہا " ابھی دس پندرہ منٹ پہلے جب میں نے کال کی تھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ آپ مسجد میں داخل ہورہے ہیں حالانکہ آپ کہیں بھی نہیں تھے ۔ نہ گیٹ پر اور نہ اندر مسجد میں ۔صبح کی نماز میں ویسے بھی تعداد تھوڑی ہوتی ہے ۔ کیوں کہ لوگ سستی کی وجہ سے نہیں آتے ۔ اس لیے میں نے پوری تسلی سے ہر نمازی کو بہت غور سے دیکھا ہے ۔ اور کچھ سے تو ہاتھ بھی ملایا ہے ۔"

مجھے اندازہ نہیں ہورہاتھا کہ سادہ خان صاحب آخر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟ اس لیے جواب دیا کہ ایسا کرتے ہیں کہ شام کو ملاقات ہوگی تو اس موضوع پر بات کریں گے ۔ اُنھوں نے ٹھیک ہے کہا اور اللہ حافظ السلام علیکم کہہ کر کال بند کی ۔گھر آکر تلاوت ِ قرآن پاک اور ناشتے سے فارغ ہوا تو تیار ہوکرنکلا ۔  رزقِ حلال کے چکر میں مصروف ہوگیا ۔ ڈیوٹی ، دن کی دو تین بار کی چائے، دوپہرکا کھانا ، ظہر ، عصر اور مغرب  کی نمازیں ، عصر کی چائے ، بچوں کی چھوٹی موٹی ضرویات اور خواہشات کی تکمیل کے دوران کئی دوستوں اور عزیزوں کی فون کال آئی۔ لیکن سادہ خان کا پتہ نہ چلا ۔ میرے ذہن سے بھی بات نکل گئی تھی ۔ مغرب کی نماز کے بعدجہاں احباب کی محفل  لگتی ہے اور عشاء کی نماز زتک رہتی ہے ۔ وہاں پہنچنے ہی والا تھا کہ اس کی کال آئی ۔ سلام سے پہلے ہی پوچھ بیٹھے کہ کہاں ہیں ؟  ہم نے جواب دیا کہ جہاں روز شام کو ملتے ہیں اُدھر ہوں ۔ پوچھا ادھر کہاں پر ۔ میں نے جواب دیا کہ اپنی نشست کے پاس ہی ۔ کہا میں اور سارے دوست بیٹھے ہیں لیکن آپ نہیں ہیں اور پھر کہتے بھی ہیں کہ جھوٹ نہیں بولتا ۔ ابھی سادہ خان کی بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ ہم نے اندر قدم رکھا ۔

سلام دعا کے بعد سادہ خان نے سب دوستوں کے سامنے اپنی ناراضگی کا اعلان کردیا کہ سیماب صاحب ، ایک تو صبح کی نماز کے لیے مسجد نہیں آئے تھے اوپر سے مجھ سے جھوٹ بھی بولا ہے ۔ دوستوں کی توپوں کا رخ اپنی طرف دیکھ کر ہم نے جلدی سے سفید جھنڈا اُٹھایا اور صفائی کرنے ۔۔۔۔۔ سوری گھبراہٹ میں منہ سے نکل گیا ۔۔۔۔۔ صفائی دینے کا موقع دینے کی التجا کی ۔ درخواست ِ صفائی منظور ہوئی تو ہم نےبجائے صفائی دینے کے صفائی لینا شروع کی ۔  سادہ خان سے سوالات شروع کیے ۔پہلا سوال:   جب آپ نے کال کی تھی تو آپ کہاں تھے ؟  جواب :اپنے محلے کی مسجد کے مین گیٹ کے ساتھ۔دوسراسوال: اور میں کہاں تھا  ؟ جواب :اپنے محلے کی مسجد کے مین گیٹ کے ساتھ ۔تیسرا سوال:  اس وقت میری باتوں کے ساتھ ساتھ آپ کو کیسی آواز سنائی دے رہی تھی ؟جواب:  اقامت کی آواز تھی۔ چوتھا سوال :آپ نے مسجد کے اندر اورباہر مجھے دیکھا لیکن میں تھا نہیں ؟ جواب :جی جی بالکل ، میں نے پوری تسلی کی تھی ۔ سب دوست قہقہے لگا لگا کے ہنسنے لگے اور لوٹ پوٹ ہونے لگے ۔

سادہ خان ناراض ہو نے لگا تو زبردستی ہنسی روک کر اُسے سمجھایا ۔ لیکن وہ بضد تھا کہ جب ہم دونوں میں ایک نہیں تین باتیں مشرک تھیں تو اس نے مجھے کیوں نہیں دیکھا ۔ یقیناََ  میں نے اس کے ساتھ کوئی ہیرا پھیری کی ہے ۔مشترک باتیں یہ ہیں : نمبر1۔ اقامت کی آواز  نمبر2۔ مین گیٹ میں سے ایک ساتھ داخل  ہونا  نمبر3۔ اپنے محلے کی مسجد میں ہونا۔

اگر آپ کو بات سمجھ آگئی ہے تو خوب ہنس لیں اگر نہیں آئی تو دو بار ہنسنا ہوگا ۔ پہلی بار ابھی ہمارے ساتھ تحریر ختم ہونے پر کیوں کہ ہم سب ہنس رہے ہیں اور دوسری بار کسی سے بات سمجھ کر ۔ کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ جس کو کوئی مزاح سمجھ نہیں آتا اس بیچارے کو کسی بات پر دو بار ہنسنا پڑتا  ہے ۔ اور ہمارا دوست سادہ خان تو اس واقعے کے بعد جب بھی ملتا ہے ہنستا ہوا ہی ملتا ہے ۔

یہاں پر کئی باتیں قابلِ غور و فکر ہیں ۔

1۔ اپنے عزیز و اقارب کی نمازوں میں حاضری کی فکر کرنا ۔

2۔ نماز فجر میں نمازیوں کی کم تعداد کے بارے میں فکر مند ہونا ۔

3۔ کسی دوست یا رشتہ دار کو آپ کے متعلق کوئی غلط فہمی ہوجائے تو اسے تحمل سے سمجھانا اور اس کی ناراضگی پر سیخ پا نہ ہونا

4۔ اگر کسی میں آ پ کی چند باتیں موجود ہوں یعنی آپ میں اور اس میں مشترک ہوں تو اس پر وہ اصول لاگو نہ کرنا جو آپ اپنے آپ پر لاگو کرتے ہیں ۔  

5۔مشترک باتیں ہونے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ مشترک عادتیں یا باتیں رکھنے والے جاندار یا بےجان ہو بہو ایک جیسے ہوں گے ۔ جیسے گھوڑے اور اونٹ دونوں کی ٹانگوں ،ناک، کان ، دم اور آنکھوں کی تعداد ایک ہے ۔ دونوں سبزہ وغیرہ کھاتے ہیں لیکن خاصیتیں بہت زیادہ مختلف ۔ بلکہ ایک طرح کا مکمل سسٹم رکھنے والے انسان آپس میں کتنے مختلف ہوتے ہیں ۔

 

 

(تحریر : عبداللہ سیماؔب)