بد ترین انسان کون؟

بد ترین انسان کون؟

چھوڑو مجھے ، چھوڑو ۔۔۔۔ یہ وہ آواز تھی جو بھیڑ میں سے آرہی تھی ۔ لوگ تقریباََ دائرہ بنائے کھڑے تھے اوراتنا شور مچا رہے تھے کہ کان میں بہت ساری آوازیں پڑنے کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ہمارے کانوں تک پہنچنے والے یہی وہ پہلے اور آخری الفاظ تھے جن کو ہم سمجھ سکے تھے۔ اتنے میں پولیس کی گاڑی آئی اور لوگوں کومنتشر کرکے درمیان میں سے دو اشخاص کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئی۔تمام ہجوم ادھر ادھر ہوجانے کی وجہ سے رش ختم ہوگیا۔ ہم نے پاس کھڑے ایک شخص سے معاملہ پوچھا تو کہنے لگے کہ گاہک دکان دار سے اس بات پر الجھ پڑا تھا کہ اسے جلدی فارغ کیوں نہیں کیاگیا ؟دکان دار کے پاس چوں کہ کھلے پیسے نہیں تھے اس لیے کھلوانے کے لیے کسی اور دکان میں بھیج دیے تھے۔جس پر گاہک نے دکان دار کو برا بھلا کہنا شروع کیا ۔ دکان دار نے پہلے تو معذرت کی پھر چپ سنتا رہا لیکن جب گاہک حد سے بڑھنے لگا، تو دکان دار نےاسے نوٹ تھماکر کہاکہ بھائی میرے !اگر آپ کوبہت زیادہ ایمرجنسی ہو تو  کسی اور دکان سے لے لیں۔ لفظ ایمرجنسی پر گاہک نے اخلاق کی تمام حدود پار کیں۔ تو دکان دارنےدھکا دے کر دکان سے نکال دیا۔گاہک نے باہر سے گالیاں دینا شروع کی تو دکان دار نے باہر نکل کر دبوچا اور خوب پٹائی کی ۔

اس طرح کے واقعات آئے روز ہوتے رہتے ہیں ۔ وجہ کیا ہے؟ ظاہر ہے وجہ عدم برداشت ہے۔ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ۔ نتیجتاََ تلخ کلامی اور گالم گلوچ تک بات پہنچ جاتی ہے جو کہ ہاتھا پائی پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اس طرح دوسروں کے لیے بھی اورخود اپنے لیے بھی پریشانی بنانا ہمارا روز کا معمول بن گیاہے۔غصہ آنا تو انسانی فطرت ہے لیکن  ہر بات پر ، ہر وقت غصہ آنا کسی طرح بھی ٹھیک نہیں ہے ۔تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غصہ کب آنا چاہیے اور کتنا اورکیسا آنا چاہیے؟ اس ضمن میں لوگوں کے مختلف مزاج ہوتے ہیں ۔جن کو چار درجوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

1۔ بعض لوگوں کوغصہ جلدی آجاتا لیکن چلا بھی جلدی جاتا ہے ۔

2۔ بعض لوگوں کو جلدی آتا ہے اور دیر سے جاتا ہے۔

2۔ بعض لوگوں کو دیر سےآتا ہے  لیکن جلدی چلا جاتا ہے۔

3۔ بعض لوگوں کو دیر سے آتا ہے اور دیر سے جاتا ہے۔

یہ کل چار صورتیں ہیں ۔ ان میں سب سے اچھی صورت تیسری اور سب سےبُری دوسری ہے ۔ ویسے تو غصہ آنا ہی نقصان دہ عمل ہے۔ لیکن چونکہ فطرتِ انسانی ہے تو جب آئے گا ہی تو تیسری صورت بہترین ہے ۔اور  دین کےمعاملات میں غصہ آنا الگ بات ہے اور ذاتی معاملات میں الگ ۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ سب سے بہترین انسان وہ ہے جس کو غصہ دیر سے آئے اور پھر جلدی اتر جائے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں تمھیں برے لوگوں سے آگاہ نہ کروں ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ضرورارشاد  فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ انسا ن بہت برا ہے جو اکیلے کھائے، اپنے غلام کو کوڑے مارے اور بخشش ورحمت کو روک دے۔ اس کے بعد فرمایا کہ کیا میں تمھیں اس سے بھی بد ترین انسان بتا دوں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ جل جلالہ  کے نبیﷺ ضرور بتادیجئے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اس بھی بُرا انسان وہ ہے جو لوگوں سے بغض رکھے اور لوگ اس سے بغض رکھیں ۔

حضورﷺ نے پھر فرمایا کہ کیا میں تمھیں اس سے بھی بدترین انسان کا پتہ بتا دوں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ ضرور بتا دیجئے۔ آپؐ نے فرمایا : وہ انسان جس سے نیکی کی امید نہ ہو اور جس سے انسان کو امن نہ ہو۔ پھر خاموش رہنے کے بعد حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمھیں اس سے بھی بدترین انسان بتا دوں؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ اے اللہ تعالی کے نبی ﷺ ضرور بتا دیجئے۔ سرور کونین ﷺ  نے فرمایا: جو بندہ کسی کی لغزش کو معاف نہ کرے اور کسی کی معذرت کو قبول نہ کرے وہ سب سے زیاہ بدترین انسان ہے۔

حقیقت پسندی کامظاہرہ کرتے ہوئے بولاجائے تو ہم میں سے کتنے ایسے ہوں گے جو دوسروں کی معذرت قبول کرتے ہیں ؟ وہ دوسرا چاہے ہماری بیوی ہو، ہمارا ماتحت ہو یا ہمارا عزیز اور رشتہ دار، ہم کسی بھی صورت کوئی بھی عذر نہیں سنتے ،چہ جائیکہ قبول کرنا ۔تو سوچنے کا مقام ہے کہ اللہ نہ کرے اگر ہمارا شمار بدترین شخص کی حیثیت سے ہونے لگا تو ہمارا انجام او رٹھکانہ کیا ہوگا؟

 ( تحریر : عبداللہ سیماؔب )