صرف مکُے نہیں ساتھ میں لاتیں بھی

صرف مکُے نہیں ساتھ میں لاتیں بھی

 

ہمارے دوست باران گل بتاتے ہیں کہ جب ہم نوجوان تھے تو ہمارے محلے کے ایک شخص  آرمی میں یا کسی اور جگہ ملازمت کرتے تھے۔ ان کا نام تو کچھ اور تھا ۔ لوگ ان کو ان کی بے پناہ طاقت اور بہادری کی وجہ سے پہلوان پہلوان کہہ کر پکارتے تھے۔  پہلوان چونکہ بہت طاقت ور اور پھرتیلے تھے اس لیے کشتی ،رسہ کشی، ویٹ لفٹنگ ،  تن سازی اورکبڈی جیسے کھیلوں میں بارہا حصہ لے چکے تھے ۔ ہر بار اپنے مخالف کو چند ہی لمحوں میں پچھا ڑنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اس طرح کے کئی مقابلوں کی وجہ سے پہلوان اپنے سینئرز کی دلوں میں ایک خاص مقام بنا چکے تھے ۔ جس کی وجہ سے وہ اس کا بہت خیال رکھتے تھے ۔ بدلے میں پہلوان بھی ان کی کسی بات سے انکار نہ کرتے تھے۔

باران گل کی زبانی پہلوان کا ایک واقعہ ہم تک پہنچا ہے ۔ ہوا یوں کہ ایک دفعہ شہر میں باکسنگ کے مقابلے منعقد ہوئے تو پہلوان سے اس کے سینئرز نے کہاکہ وہ بھی اس میں شرکت کرے ۔ پہلوان نے بہت سمجھایا کہ صاحب جی ، میں تو کُشتی وغیرہ کا کھلاڑی ہوں ۔ اس لیے مجھے باکسنگ کھیلنے سے بخش دیں تو مہربانی ہوگی ۔  لیکن اس کی ہر دلعزیزی کی وجہ سے اس کے سینئرز نے اسے حصہ لینے پر خوب اُکسایا ۔ آخر کار پہلوان باکسنگ مقابلوں میں شرکت پر تیار ہوا۔

ان مقابلوں میں ایک باکسر ایسا بھی تھا جو کہ خود کو بہت بڑا تیس مار خان سمجھتا تھا ۔ وہ چوں کہ پہلوان کی شہرت اور ہر دلعزیزی سے حسد کرتا تھا ۔ اس لیے اس نے اعلان کیا کہ وہ سب سے پہلا مقابلہ پہلوان سے کرے گا۔ اس مقابلے میں جو جیتے گا وہ آگے جائے گا اور جو ہارے گا ۔ وہ کسی بھی دوسرے کھلاڑی کے ساتھ کوئی بھی میچ نہیں کھیلے گا۔پہلوان کو معلوم ہو اتو اس نے  اپنی فطرتاََ   خوش اخلاقی اور  شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس باکسر کو پیغام بھیجوایا کہ  اپنے کھیل سے کام رکھےاورفضول حرکتیں نہ کرے ۔ کیوں ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہم دونوں نقصان اُٹھائیں ۔ لیکن باکسر نے کہا کہ  پہلوان چوں کہ مجھ سے  طاقت میں کم اور ڈرپوک  ہے اس لیے ہارجانے کےخطرے کی وجہ سے دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے۔

مختصر یہ کہ مقابلے کا دن آگیا تو باکسر مقررہ وقت سے پہلے ہی باکسنگ رنگ میں داخل ہوکر اچھلنے کودنے لگ گیا۔ مقررہ وقت پر پہلوان بھی رنگ میں داخل ہوا تو باکسر نے اس کے سامنے اور بھی زیادہ اچھلنا شروع کیا ۔ باکسر پہلوان کو پنچ مارنے کے بجائےصرف مارنے کا سٹائل بنا بنا کر اچھل رہا تھا اور کچھ  کم فہم اور سطحی سوچ رکھنے والے بھی باکسر کا نام لے لے کر شور مچانے لگے ۔ آخر تنگ آکر پہلوان باکسر کے قریب ہوتا گیا ۔ جب باکسر اس کی پہنچ میں آگیا تو پہلوان نے اسے ایک زور دار مکا رسید کیا جس کی تاب نہ لاکر باکسر زمین بوس ہوگیا ۔ باکسرکے سپورٹرز نے بہت کوشش کی کہ وہ اٹھ کر پہلوان کا مقابلہ کرے لیکن پہلوان کے ایک مکے نے اسے بہت اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ شریفوں کی مصلحت آمیز خاموشی کا مطلب کمزوری یا بزدلی نہیں ہوتا ۔ اس لیے زمین پر پڑے رہنے کو ہی ترجیح دی یہاں تک کہ پہلوان اکھاڑے سے باہر آگیا ۔ ہمارے دوست باران گل نے  بتایا، کہ جب تک باکسر زندہ رہا  پہلوان کی مخالفت تو کجا اس  کا نام تک زبان پر نہیں لایا ۔

 یہی حال ہمارے ملک دشمن عناصر  کا ہوتا رہتا ہے ۔ انھیں   عالمی سطح پر پاکستان کی ہر دلعزیزی سے اتنی حسد ہوتی رہتی ہے کہ جیسے ہر وقت جلتی آگ پر بیٹھے ہوئے پائے جاتے ہیں  ۔ ان کی ہر وقت یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح پاکستان کی بدنام کریں ۔ کسی طرح پاکستان کو نقصان پہنچائیں  ۔  بہت زیادہ اچھل کود کرنے اور اپنے کم فہم اورسطحی سوچ رکھنے والے دوستوں اور طرف داروں سے شاباش وصول کرنے کے بعد جب وہ رنگ میں داخل ہوتے ہیں، تو پہلوان یعنی پاکستان نے انھیں  ایسا مکا مارتا ہے کہ وہ زمین پر پڑا رہنےکو ہی ترجیح دیتے ہیں ۔ لیکن ان کے کچھ عاقبت نااندیش حامی  اسے پکار پکار کر دوبار  سے اچھل کود پر اکساتے ہیں۔ باکسر نے تو پھر بھی تھوڑا بہت عقل سے کام لے کر زمین پر پڑا رہنے کو ترجیح دی اور پہلوان سے گلوخلاصی ہوگئی تھی ۔ لیکن یہ دشمن اپنی بے وقوفی کی وجہ سے یا کسی اور لالچ یا وجہ سے  پھر اچھل کود کرنے اور پہلوان کو للکارنے لگ جاتے ہیں ۔اس لیے میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ پہوان کو انھیں ایک ہی بار میں وہ سبق سکھانا چاہیے جو یہ زندگی بھر خود بھی یاد رکھیں اور دوسروں کو بھی سکھاتے رہیں ۔اس سبق میں صرف مکے کا ہی نہیں بلکہ ساتھ میں لاتوں کا بھی بھر پور ستعمال کرنا چاہیے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں  وطنِ عزیز کی طرف اُٹھنے والی ہر میلی آنکھ کوپہچاننے اور  نیست و نابود کرنے کی توفیق عطا فرمائے  

 

(تحریر : عبداللہ سیماؔب)