تو شادی کیوں کی تھی؟

تو شادی کیوں کی تھی؟

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ کئی دن سے بہت سخت سردی پڑرہی ہے ۔ جتنی بھی مجبوری کیوں نہ ہو  باہر نکلنے کو بالکل دل ہی نہیں کرتا ۔ لیکن کسی کی محبت انسان کو کچھ بھی کرنے پر آمادہ کر لیتی ہے۔ کیوں کہ انسان یا کسی بھی جاندار کو دو ہی ایسے محرکات ہیں جو کچھ بھی کرنے پر تیار کرلیتے ہیں ۔ پہلا محرک محبت ہے اور دوسرا غصہ ۔چلیں انسان کو چھوڑ کر باقی جانداروں پر ذرا ایک نظر ڈالیں تو سب کچھ پل بھر میں واضح ہوجاتا ہے ۔مثلاََ مرغی اور بلی  کی لڑائی ہی کا تصور کیجیے۔ مرغی اپنے بچوں کے بچاؤ کے  لیےکتنی جان فشانی سے لڑتی ہے

بہرحال اصل بات کی طرف آجاتے ہیں ۔ہواکچھ یوں کہ میں اپنے بڑے دو بیٹوں کے ساتھ عشاء کی نماز کے لیے گیا ہواتھا ۔  واپسی پر دروازے پر دستک دی تو چھوٹے بیٹے نے دروازہ کھولا ۔ معمول کے مطابق مجھے سلام کیا اور ہاتھ ملا ۔ میں نے اُسے پیار کیا تو کہنے لگا کہ ابو ابو ! آپ سےنا مچھلی کی بُو آرہی ہے۔میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ بیٹا ہم تونماز کے لیے گئے تھے اور وہ مسجد میں پڑھ کے آئے ہیں کسی مچھلی والے کی دکان پر نہیں ۔ بڑے بیٹے نے کہا کہ  چھوٹے! ادھر ادھر کی فائرنگ کیوں کررہے ہو ۔ دائریکٹ کہہ دو کہ مچھلی کھانے کو دل کررہا ہے تو ہم  دیکھ لیتے ہیں اگر کوئی فش پوائنٹ کھلاہوا  ملا تو لے آتے ہیں ۔ میں نےکہا کہ  بیٹا ! بہت سخت سردی ہے صبح کھالیں گے ابھی رہنے دیں ۔ تو بڑے بیٹے نے کہا کہ ابو ! اس کا دل ہے تو لے آتے ہیں ، یہ نہ ہو کہ یہ نیند میں میم سےمچھلی میم مچھلی کرتا رہے تو ہماری بھی رات خراب کرلے گا۔اتنے میں چھوٹے بیٹے کو ماں نے کچن میں بُلا لیا ۔ جب باہر آیا تو اصرار کرنے لگا کہ ابو! میں نے تو مذاق میں کہا تھا آپ لوگ تو سیریس ہو گئے ہیں ۔ میں  نےاس کی ان سنی کرکے بڑے بیٹے سے بائیک نکالنے کا کہا تو ان کی ماں نے مجھے پُکارا کہ آپ بھی بچے بن رہے  ہیں۔اتنی سردی میں جانے کی کیا ضرورت ہے اور اگر جانا ہی ہے تو بچے کو تو ساتھ میں  ذلیل نہ کریں۔ میں نے مسکرا کر چھیڑتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو سردی لگ رہی ہے تو کچن میں چولہے کے پاس جائیں اس نے ہونہہ کرکے اپنا راستہ لیا۔ الغرض میں اور بڑا بیٹا بائیک لے کر بازار کے لے نکل کھڑے ہوئے ۔

وہاں جاکر پتہ چلا کہ ہر فش پوائنٹ پر منچلوں کی ایک فوج ظفر موج موجودہے ۔ہم نےبھی آڈر دے دیا۔تو تقریباََ گھنٹہ بعد ہمیں فارغ کردیا گیا۔ ہم سردی اور اندھیرےکی وجہ سے آہستہ آہستہ بائیک چلاتے ہو ئےجا رہے تھے  کہ ایک گلی میں بائیک کی لائٹ میں  گیٹ کے باہر بیٹھی ہوئی ایک عورت نظر آئی  جو روتے ہوئے ایک ہی بات دہرا رہی تھی کہ" تو شادی کیوں کی تھی ؟" ہم نے قصداََ بائیک کی رفتار ممکنہ حد تک کم کردی کہ شاید اصل معاملہ معلوم ہو سکے تو کچھ مدد کردیں ۔ اتنے میں گیٹ کے اندر سے بہت تکبر کے ساتھ نہایت حقارت آمیز سخت آواز میں کہا گیا کہ تُو ابھی تک ادھر ہی بیٹھی ہے، دفع کیوں نہیں ہوتی یہاں سے ؟ عورت وہی ایک ہی بات کہے جارہے تھی کہ "تو شادی کیوں کی تھی؟" اچانک ایک جھٹکے سےمین گیٹ کھولا گیا اور ایک شخص نے باہر آکر عورت کو لاتیں  اورگھونسے مارنا شروع کیے ۔ ساتھ میں دھکے دیتے ہوئے کہتا رہا کہ چل دفع ہو یہاں سے ۔

   ہم نے اللہ کا نام لے کر بائیک روکی اور جلدی سے اس شخص کو پیچھے سے قابو کیااور پوچھا کہ" بھائی صاحب ! کیوں مار رہے ہیں بیچاری کو؟"  اُس نے جان چڑانے کی کوشش کرتے ہوئے غُرا کر کہا کہ میری اپنی بیوی ہے جو بھی  کروں آپ لوگ کون ہوتے ہیں مجھے روکنے والے؟  میں نے اُسے کہا کہ ایک شرط پر آپ کو چھوڑ سکتے ہیں ۔اس نے غصے میں پوچھا ، کونسی شرط ؟  میں کہا کہ آپ دوبارہ مارنے کی کوشش نہیں کرینگے  اورمیرے ایک سوال کا تسلی سے جواب دیں گے ۔ اس نے ' ٹھیک ہے'  کہا تو ہم نے اُسے چھوڑ دیا۔ اُس نے آزادی پاتے ہی  اکڑ کر کہا کہ جی پوچھیں ۔ ہم نے کہا کہ اگرآپ کے پاس کوئی بیٹھنے کی جگہ ہو تو بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔اُس نے بہت ناگواری کے ساتھ ہاں کر دی۔ اندر جاکر مین گیٹ کے ساتھ ایک چھوٹادروازہ  کھول دیا۔اندر بجلی نہ ہونے کی وجہ سے اندھیرا تھا ۔ اس نے کہیں سے ماچس ٹٹول کر موم بتی جلائی۔ ہم اور وہ عورت اندر داخل ہوئے۔اس نے آگے بڑھ کر عورت کو دھکا دے کر باہر نکالنا چاہا تو میں نےروکا کہ پہلے میرے سوال کا جواب دیں پھر جو مرضی کریں ویسے بھی یہ آپ کی بیوی ہےیہ کوئی انسان تو ہے نہیں ، آپ کے جو دل میں آئے پھر کرتے پھریں ۔ بلکہ مجھے تو یہ جاندار بھی نہیں لگ رہی ۔(میں نے لفظ بیوی پر اتنا زور دیا کہ اس شخص نے چونک کر میری طرف دیکھا)

میرا یہ تیر نشانے پر لگا ۔ اس نے نظریں جھکا کر کہا کہ میں سمجھ گیا جی ۔ میں نے کہا کہ دیکھیں میں اور کچھ نہیں کہتا لیکن صرف ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ بیوی کسے کہتے ہیں ؟ اس نے نرم پڑتے ہوئے کہا کہ ذرا پھر سے کہیں ۔ آپ کا بولنے کا سٹائل اور آواز ؟ میں نے بات دہرائی تو اس نےاُٹھ کر  میرے پیر پکڑلیے اور روتے ہوئے کہا کہ سر جی میں سمجھ گیا ہوں ۔ روتا رہا اور کہتا رہا کہ مجھے یاد آگیا ہے اور میں سمجھ گیا ہوں ۔ مجھے یاد آگیا ہے اور میں سمجھ گیا ہوں ۔ میں نے اسے اُٹھا کر اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھانا چاہا لیکن وہ اٹھ کر پھر سے میرے پیروں میں بیٹھ گیا ۔ میں نے اسے دوبارہ اٹھانا چاہا تو اس کا چہرہ عین میرے سامنے آگیا تو میرے منہ سے چیخ سی  نکلی ارے فلاں تم ۔ اس نے داڑیں مارکر کہا کہ جی سر ! یہ بے غیرت میں ہی ہوں ۔یہ بے غیرت میں ہی ہوں لیکن سر! آپ شرمندہ مت ہوں آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے ۔ میں ہی شیطان اور نفس کے بہکاوے میں آگیا تھا ۔

 کہنے لگا کہ سر! جب ہم سیکنڈ ائیر میں تھے تو آپ ہمارے کلاس انچارج تھے ۔ جب کلاس میں ہمارا آخری دن تھا تو آپ نے کلاس میں ایک مختصر سی تقریر کی تھی جس میں آپ نے ہمیں نبی اکرم ﷺ کے سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کی تلقین کی تھی اور اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حدود کو توڑنےسے ڈرایاتھا ۔آخر میں آپ نے کہا تھا کہ یاد رکھیں کبھی بھی  میرے لیے شرمندگی اور رسوائی کا سبب مت بننا ، کہ میرا ضمیر مجھ سے کہے کہ دیکھ ، تیرے شاگرد تو بہت بے غیرت نکلے ۔ وہ روتا رہا اور کبھی مجھ سے اور کبھی بیوی سے معافیاں مانگتا رہا۔ میں نے اسے قصداََ رونے دیا تاکہ اس کے  دل کا بوجھ ہلکا ہو۔ تین چار منٹ رولینے کے بعد میں نے اسے چپ کرایا ۔ تو اس نے بیوی سے کہا کہ اللہ تجھ پر رحم کرے جاؤ اندر اور سر کے لیےزبردست سی چائے بنا کر لے آؤ ۔ ہم نے بہت منع کیا لیکن وہ نہ مانا ۔ جب اس کی بیوی اندر جانے لگی تو اس نے میرے بیٹے سے کہا کہ آپ بھی اندر چلے جائیں میرے بچوں سے بھی مل لیں اور گھر بھی دیکھ لیں ۔

جب وہ دونوں اندر چلے گئے تو اس نے مجھے سارا قصہ سنا دیا ۔ اتنی لڑائی اور مار پیٹ میں غلطی کسی کی بھی نہیں تھی ۔ لیکن دوسرے پہلو سے دیکھیں تو دونوں کی غلطی تھی ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ عجیب منطق ہے یہ تو ،کہ غلطی دونوں کی نہیں بھی تھی اور تھی بھی۔  تو سن لیں : دونوں کی غلطی ایسے نہیں تھی کہ کسی نے بھی غلط بات نہیں کی تھی ۔ اور دونوں کی غلطی ایسے تھی کہ جس  بات کی وجہ سے معاملہ اس حد تک پہنچ گیا تھا وہ بہت ہی معمولی سی تھی ۔ وہ بات کیا تھی؟ آپ خود پڑھیں اور فیصلہ کریں ۔

ان کے ہاں بھی وہی کچھ ہوا تھا جو ہمارے ہاں ہوا تھا (جو اوپر پہلے پیراگراف میں گزرچکا ہے)  فرق صرف اتنا تھا کہ اس نے اور اس کی بیوی نے ایک دوسرے کی باتوں کو اعتراض سمجھا اور ہم نے اسے فکر کرنا اور خیال رکھنا سمجھا ۔اس  کی بیوی نے جب بچوں کو منع کیا کہ باپ کو سردی میں تنگ مت کرو تو اسے یعنی شوہر کو یہ اعتراض لگا ۔ اور جب اس نے جواباََ کہا کہ آپ فکر نہ کریں میں پانچ منٹ میں لے آتا ہوں تو بیوی کو لگا کہ شوہر اس کی بات پر کان نہیں دھرتا ۔ الغرض ایک دوسرے کے سمجھنے کی کوشش نہ کرنے کی وجہ سےغلط فہمی پیدا ہوئی اور غلط فہمی نے   منٹوں میں جنت نظیر گھر کو آتشِ جہنم بنا دیا ۔

یہ بات الگ ہے کہ بیوی یعنی عورت جو کہ بنائی ہی گئی ہے مہربان، محبت کرنے والی ، گرم مزاج کو نرم مزاج بنانے والی ، ہنستی مسکراتی ، گرمی میں ٹھنڈی چھاؤں تو سردی میں ہلکی ہلکی گرم دھوپ، باہر سے تھکے ہارے پریشان حال آنے والوں ،لوگوں اور حالات کے ستائے ہوئے ، حالات سے بددل اور شکستہ دل کی ڈھارس بندھانے والی  اور حوصلہ ہارے شوہر، بیٹے اور بھائی کی توانائیوں اور اُمیدوں کو نئے سرے سے منظم کر کے پھر سے زندگی کی تلخیوں اور سختیوں کے لیے سینہ سپر کرنے  اور میدان ِجدوجہد میں اتارنے والی ۔ تو اگر وہ بھی مزاج میں گرمی اور سختی دکھائی گی ۔تو زندگی نہ صرف دشوار بلکہ دوسروں کے سامنے شرمندگی کا باعث بھی بنے گی۔     

خلاصہ کلام: 1۔ آپس میں ایک دوسرے کی نہ صرف سنا کریں بلکہ سمجھا بھی کریں ۔ممکن ہو تو عمل بھی کریں ۔ہر بات میں اور ہر کام میں مثبت پہلو تلاش کریں ۔ ملے تو بہت اچھے نہ ملے تو اپنی نظر کو مجرم ٹھہرائیں نہ کہ دوسرے کی نیت اور عمل پر شک کریں ۔

2۔ ہم سب کے اعمال اور اقوال کی وجہ سے یا تو ہمارے والدین کے سر بلند ہوتے ہیں یا اللہ نہ کرے شرم سے جھک جاتے ہیں کہ شاید ان سے اولاد کی تربیت میں کوئی کمی کوتاہی ہوئی ہے ۔

3۔ چند ہستیاں اور بھی ہیں جو ہمارے اچھے برے اعمال اور اقوا ل کی وجہ سے لوگوں اور ان کے اپنے ضمیر کی شاباش کے مستحق بنتے ہیں  یا تعن و تشنیع کا شکار  ہوتے ہیں ۔ وہ ہیں ہمارے اساتذہ کرام ،   ہمارے دوست اور ہم پیشہ لوگ یعنی کولیگ ۔

4۔ ہماری زندگی صرف ہماری نہیں ہے اس ہمارے میں والدین، اساتذہ کرام، دوست احباب،عزیزو اقارب، اڑوس پڑوس ، جان پہچان رکھنے والوں ، ہمارے ارگرد کے افراداور سب سے بڑھ کر ہماری اوالاد کا بہت بڑا حصہ ہے اس لیے اپنی زندگی کو ایسا رکھنا چاہیے کہ اس سے ان سب کو راحت اور خوشی میسر ہو نہ کہ بے چینی اور غم ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے اور شیطان اور نفس کے شر سے پناہ میں رکھے ۔    

(تحریر :  عبداللہ سیماؔب)