چند دن پہلے وٹس اپ پر ایک ویڈیو موصول ہوئی ، جس میں واضح
طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص ، پریشان حال،بال بکھرے ہوئے، ایک پائنچہ اوپر
کو اُٹھا ہوااور دوسراجوتے کے نیچےآتا ہوا، چادر کو اپنے پیچھے گھسیٹتا ہوا کسی
گلی میں جارہا ہے ۔کبھی ایک دروازے پر دستک دیتا ہے اور کبھی دوسرے پر۔ دستک دینے
کے بعد اندر سے آنے والے کا بہت بے چینی سے انتظار کرتا ہے۔ جب اندر سے کوئی نمودار ہوتا ہے
تو دستک دینے والا اُس کے ہاتھ پکڑ کر بہت عاجزی سے منت کرکے کچھ کہتا ہے ۔ اندر
سے آنے والا کبھی تو اُسے آتے ہی ناں کر دیتا ہے اور کبھی انتظار کا کہہ کر اندر چلا جاتا تو گلی
میں موجود شخص بہت اضطرابی کیفیت میں کبھی آسمان کی طرف اور کبھی دروازے کی طرف دیکھتا
ہے ۔ اتنے میں اندر سے بندہ آتا ہے اور
منفی میں جواب دے دیتا ہے ۔ تودستک دینے والا بہت پریشانی کی حالت میں دوسرے
دروازے کی طرف لپک جاتا ہے ۔چار پانچ گھروں سے نفی میں جواب پاکر وہ روہانسا ہو
جاتا ہے اور باربار ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر دعا مانگتا ہے۔ آسمان کی طرف دیکھتا جاتا
ہے ۔ گلی کے آخری گھر کے دروازے پر دستک دینے سے پہلے لمبی دُعا مانگتا ہے اور تین
چار بار منہ پر ہاتھ پھیر کر پھر سے دعا مانگنے لگ جاتا ہے ۔دروازے پر دستک دیتا
ہے اندر سے کوئی آتا ہے یہ کچھ کہتا ہے تو اندر سے آنے والا فوراََ واپس ہوتا ہے
اور چند ہی منٹ میں دوبارہ نمودار ہو کر دستک دینے والے کے ہاتھ میں کچھ پکڑا تا
ہے تو وہ فرطِ جذبات میں اُدھر ہی سجدہ ریز ہو جاتا ہے ۔
مذکورہ ویڈیو ہمیں ہمارے نہایت ہی عزیز دوست سادہ خان نے
بھیجی ہے۔ ساتھ میں سادہ خان کی کمنٹری بھی چل رہی ہے ۔ آئیے سادہ خان کی زبانی سنتے ہیں ۔ السلام
علیکم ناظرین ! ویڈیو میں نظر آنے والے
شخص ہمارے دوست گودام شاہ ہیں ۔ اُنھوں نے کل منگل بازار سے ایک بہت ہی عمدہ نسل
کا چُو چا یعنی چُوزا خریدا ہے۔ جو کہ نئے گھر میں آنے سے کچھ خوف زدہ اور
پریشان سا ہوگیا تھا ، اس لیے آج صبح سویرے منہ اندھیرےجب ہمارے دوست نماز کے
لیے گھرسے نکلنے لگے تونئے مہمان
یعنی چوزے صاحب بھی چھپکے سے ان کے پیچھے نکل گئے ۔ چونکہ محلے میں نئے تھے اس لیے واپسی
کا راستہ شاید بھول گئے ہیں یا شاید نیا گھر پسند نہ آنے کی وجہ سے بھاگ گئے ہیں ۔
یا شاید کسی کے ہاتھوں کِڈنیپ ہو گئے ہیں ۔دیکھیں ہمارے دوست گودام شاہ کتنے
پریشان ہیں اگر آپ میں سے کسی کے ہاتھ ان کا خریدا گیا مہمان ۔۔۔۔ معاف کیجیے گا
چوزا لگے تو برائے مہربانی ان کو ضرور اطلاع دیں ۔ اتنا پریشان تو شاید ۔۔۔ بلکہ یقیناََ کوئی اپنے
بچے کے گھر سے بلا بتائے جانے پر نہیں ہوا ہوگا جتنا ہمارے دوست مرغی کے بچے کے
جانے پر ہورہے ہیں۔ ارے یہ کیا ؟ واہ بھئی کمال ہوگیا ۔ گودام شاہ کو اُن کا چوچا
مل گیا ۔ مبارک ہو ۔ تھینک یو آل ۔۔۔ اللہ حافظ
ہم نے یہ ویڈیو تین چار دفعہ ری پلے کی ۔ وجہ کیا تھی
؟ وجہ ۔۔۔۔ سادہ خان کے ایک جملے نے ہمیں ایساکرنے پر
مجبور کیا۔ وہ جملہ یہ تھا کہ اتنا پریشان تو کوئی اپنے بچے کے گھر سے بلا بتائے
جانے پر نہیں ہوا ہوگا جتنا ہمارے دوست مرغی کے بچے کے جانے پر ہورہے ہیں ۔کیا
واقعی ایسا ہے ؟ کیا ہمیں اپنی اولاد کی بالکل پرواہ نہیں ہے ؟ کیا ہم صرف دولت کما
نے، بچوں پر خرچ کرنے یا اُن کے لیے جمع کرنے کو سب
کچھ سمجھ بیٹھے ہیں ؟ کیا ہم اپنے بچوں کو مہنگےسکولوں اور ٹیوشن سنٹر ز یا مدارس میں بھیج کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ سب
کچھ ٹھیک چل رہا ہے ؟ کیا گھر سے باہر ہماری اولاد جو کر رہی ہے یا اُن کے ساتھ جو
ہو رہا ہے وہ سب قابل قبول ہے ؟کیا ہمارے بچوں کے دوستوں پر ہماری کڑی نظر ہے ؟
کیا ہمارے گھر آنے جانے والے سب لوگ ہر طرف سے قابل بھروسہ ہیں ؟ کیا گلی محلے میں
جن لوگوں سے ہمارے بچوں کا واسطہ پڑتا ہے وہ سب صالح لوگ ہیں ؟ کہیں ہمارے بچوں کو
کوئی مسئلہ تو درپیش نہیں جو وہ ہمیں بتا نا چاہتے ہیں لیکن ہم میں اور ان میں
اتنا فاصلہ ہے کہ وہ بتا نہیں پا رہے ؟
خدارا ! اپنے بچوں کے ایک ایک حرکت پر نظر رکھیں ۔ ان کے
ساتھ دوستانہ ماحول رکھیں ۔ ان کو حوصلہ دیں اور بلا وجہ ڈانٹ ڈپٹ سے اجتناب کریں
۔ اگر کہیں کوئی مسئلہ نظر آئے تو اپنے
بچوں کو سپورٹ کریں ۔ کسی بھی مسئلے کو چھوٹا سمجھ کر نظر انداز نہ کریں ۔ بلکہ
اپنے بچوں سے روزانہ پورے دن کی کار گزاری
سنیں ۔ اور ان کی باقاعدہ حوصلہ افزائی کریں کہ اگر کوئی ان کو تنگ کررہا ہے یا
کسی کی کوئی بات ان کو پسند نہیں آرہی۔تو معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔آپ
نے جتنے واقعات کا سن رکھا ہے یا ٹی وی اور یوٹیوب وغیرہ پر دیکھتے رہے ہیں ۔اور
سوچ رہے ہیں کہ آخر یہ سب کیسے ہوگیا؟ اس بچے یا بچی کے والدین کو اس شخص پر شک
کیوں نہیں ہوا ؟ یا اس شخص میں اتنی درندگی کیوں آئی ؟ اس نے اسی بچے یا بچی کو ہی
نشانہ کیوں بنا یا؟
ان سب سوالات کاجواب ہمارااپنے بچوں سے بے فکر ہوجانا ہے ۔ بچوں کے بولنےچالنے، اُٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے ، گھر سے باہر آنے جانے، گلی محلوں کے دکانوں سے سودا سلف لانےکے طریقہ کار اور اوقات پر خاموش نظر رکھنی چاہیے۔ سکول وین یا گلی محلے کے رکشا وغیرہ کے ڈرائیور، محلوں میں موجود دکانداران، ٹیوشن پڑھانے والے، اساتذہ کرام، ہمارے گھروں میں آزادانہ آنے جانے والےرشتہ دار،جن گھروں میں ہمارے بچے اکثر آتےجاتے رہتے ہیں وہاں کےمرد عورتوں اور یہاں تک کہ ناظرہ پڑھانے والے قاری صاحب اور امام مسجدصاحب پر بھی نظر رکھنی چاہیے کیوں کہ ہمیں اپنے بچوں کو بچانا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ فرض کیاکہ ایک شخص بہت ہی معزز ہے یا ہمارا بہت ہی قریبی رشتہ دار یا تعلق دار ہےاور اس سے ہمارےبیٹے یا بیٹی کو کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ ہے توکیا ہم صرف نظر کرلیں گے؟کہ خیر ہے وہ بہت معزز آدمی ہے یا ہمرا رشتہ دار ہے یا یہ ہے یا وہ ہے۔ جب ہمارا جواب نہیں ہے تو کیوں نا ہم ان سب لوگوںپر نظر رکھیں اور ہر طرح کے نامناسب صورت حال سے خود کو بچائیں ۔
یہاں پر ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ نظر رکھنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ کسی سے کوئی گستاخی کی جائے یا کسی کوچور سمجھا جائے ۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کے معمولات پر گہری نظر رکھیں۔ صرف ایک بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ اچھے اور برے میں تمیز کرکے رویہ رکھا جائے ۔
اس کا آسان اور مؤثر حل یہ ہے کہ بجائے دوسروں کے کھوج میں لگے رہنے کے ہم صرف صرف اپنے بچوں کی معمولات پر نظر رکھیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بچوں کے ساتھ ہمدردانہ ، منصفانہ اور دوستانہ رویہ رکھیں تا کہ وہ اپنے خیالات ، خدشات اور خواہشات ہم سے شئیر کرسکیں اور ہم جہاں کہیں ضرورت ہو انکی رہنمائی کرسکیں اور ان کو مدد فراہم کرسکیں ۔
اللہ
تعالیٰ ہم سب کی اور ہمارے معصوم بچوں کی ہر طرح کے شیاطین کے ہر قسم کی شر سے حفاظت فرمائے ۔
رَبَناَ
ھَب لَنَا مِن اَزوَاجِناَ وَ ذُرِیَاتِناَ قُرَۃاَعیُنِ و جَعَلنَا لِلمُتَقِینَ
اِمَاما ہ
(تحریر : عبداللہ سیماؔب)