مجھے نماز سکھائیں

مجھے نماز سکھائیں

 

مجھے سجدے کی حالت میں شدید قسم کا جھٹکا لگا ۔وجہ میرے پہلو میں کھڑے ہوئے حضرت تھے ۔وہ جیسے دھماکے سے سجدے میں آیا تھا اُسی طرح دھماکے سے اُٹھا۔نماز پڑھنے سے پہلے میں نے انھیں  بغور دیکھا تھا ۔کوئی  65 70 سال کی عمر کے تھے۔ بہت خوب صورت داڑھی، سر پر قیمتی چترالی ٹوپی اورزبردست قسم کا واسکٹ زیب تن کیے ہوئے تھے۔ لوگ ان کو حاجی صاحب ، حاجی صاحب کہتے ہیں ، نام پتہ نہیں کیا ہے؟ ان کے حلیے سے لگتا ہے کہ فورسز میں یا کہیں اور کسی اچھے ادارے میں ملازمت کر چکے ہیں ۔

ہم دونوں نماز جمعہ سے پہلے والے چار سنتوں کے لیے اکھٹے کھڑے ہوئے۔ میں ابھی قیام میں تھا کہ انھوں نے رکوع کیا ۔ پھردونوں سجدے کرکے دوبارہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ جب میں سجدے میں پہنچا تو وہ بھی دوسری رکعت مکمل کرکے سجدے میں آگئے۔ پہلا دکھ تو مجھے اس بات کا ہوا کہ میں 44 سال کی عمر میں ابھی ایک رکعت نہیں کر پایا ہوں اور وہ 70 سال کی عمر میں دوسری بھی کر آیا ہے۔ حالاں کہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بالکل تندرست ہوں ۔ اللہ نہ کرے مجھے کوئی ایسی بیماری نہیں جس کی وجہ سے مجھے اُٹھنے بیٹھنے یا جھکنے میں کوئی مسئلہ ہو۔ اور نہ میں نے کوئی لمبی سورۃ پڑھی تھی ۔ سورت ِ فیل پر ہی اکتفا کیا تھا ۔ پھر بھی وہ حضرت اتنا تیز تیز پڑھ رہے تھے کہ میری ایک رکعت کے ساتھ دو  پورے کرچکے تھے۔ اس سےزیادہ خوفزدہ جس بات نے مجھے کیا جس کی وجہ سے مجھے کرنٹ سا لگا تھا وہ یہ تھی کہ انھوں نے سجدے میں پہنچ کر ربنا لک الحمد پورا کیا پھر اللہ اکبر کہا ۔ اس کے بعد زور زور سے سبحان ربی الاعلی پڑھا ۔ زور زور سے پڑھنا تو چلو بندہ کہے کہ بوڑھا ہے تو سنائی نہیں دے رہا ہوگا ۔ اس لیے اتنا اونچا پڑھ رہا ہے ۔ حالاں کہ عام گفتگو وہ بالکل آہستہ آہستہ  کرتا ہے ۔ تو مطلب یہ ہوا کہ سجدے میں زور سے تسبیحات پڑھنے کی وجہ سانس کا پھولنا تھا۔ دوسری بات یہ کہ رکوع کے بعد کھڑے ہونے کو قومہ کہتے ہیں جہاں پر کھڑے ہوکر ربنا لک الحمد پڑھنے کے بعداللہ اکبر کہہ کر سجدے میں جایا جاتا ہے۔  پھر دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا ہے جسے جلسہ کہتے ہیں ۔ جو کہ سجدوں کےمابین فرق کرتا ہے یہاں پر بیٹھنا بھی ضروری ہے ۔ یعنی قومہ اور جلسہ کیے بغیر نماز پڑھنا یا اتنا تیز پڑھنا کہ سانس پھولی ہوئی ہو، کہاں کا انصاف ہے اور کیا یہ نماز قابل قبول ہے ؟

اگر یہ حضرت ساری زندگی یہی کرتے رہے ہیں، تو ان کی نمازوں کا کیا بنے گا ؟ کیا کبھی ان حضرت نے سوچا ہوگا کہ اپنی نماز کسی کے سامنے پیش کرے ۔ کیا ہم میں سےبھی کسی نے  کبھی اپنی نماز کسی کے سامنے پیش کی ہوگی کہ اگر اس میں غلطی ہو تو اسے درست کیا جا سکے ۔ یقیناََ نہیں ۔ کیوں ؟ اس لیے کہ ہمیں ایسا کرتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپنی نماز یا قرآن پاک کی تصحیح کسی سے کرائیں گے تو وہ کیا سوچے گا ۔ لوگ کیا کہیں گے کہ اتنا پڑھ لکھ کر بھی اس کو نماز نہیں آتی یا اس کی قرات ٹھیک نہیں یا اس کو روزے اور زکوٰۃ کے مسائل کا پتہ نہیں ہے ۔ داڑھی سفید ہوگئی ہے پھر بھی بچوں کی طرح نماز اور قرآن سیکھ رہا ہے ۔تقریباََ اسی طرح کا ملا جلا حال نوجوانوں کا ہے ۔ دنیاوی تعلیم میں کمزور اور متوسط لوگوں کا تو کیا کہنا ، اپنی کاسز میں  ٹاپ آنے والے اکثر جوان اور نوجوان بھی اس ضمن میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے سب نے دین اور شرعی معاملات سے بے خبر رہنے کا مقابلہ لگا رکھا ہے۔

چلیں مانا کہ لوگ باتیں کریں گے لیکن کیا ہم لوگوں کو جواب دہ ہیں ؟ کیا دنیا کے کام سیکھنے میں بھی ہم نے کبھی شرم محسوس کی ہے ؟اگر نہیں تو میرے عزیزو  آئیے دین سیکھ لیں ۔ روزانہ کے مسائل سیکھ لیں ، تاکہ کل کو یوم محشر کی شرمندگی سے بچ جائیں ۔ دوسری بات جو مسلمان بھائی یا بہن کہے کہ لوگ کیا کہیں گے تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جب میدان حشر میں سارے اعمال ٹوٹے پھوٹے نکلیں گے تو لوگ کیا کہیں گے ؟جب میزان پر ناکامی کا سامنا ہوگا تو لوگ کیا کہیں گے۔ جب فرشتے پکڑ کر جہنم کی طرف گھسیٹیں گے تو پھر لوگ کیا کہیں گے؟؟؟

(تحریر : عبداللہ سیماؔب)